گھنٹی کون باندھے گا؟

415

وطن ِ عزیز میں جتنا لفظوں کو بے توقیر کیا جاتا ہے دْنیا کی کوئی بھی قوم اس بے توقیری کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہر بااختیار شخص اور ادارہ کسی بھی لفظ کو اپنی مرضی کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ مثلاً نادرا کی لغت میں خونی رشتہ وہی ہوتا ہے جو ایک ماں اور ایک ہی باپ سے عالم ِ رنگ ِ وبو میں آتا ہے باپ ایک ہو اور ماں دوسری ہو تو اْسے خونی رشتہ نہیں سمجھا جاتا۔ ایک بچے کی ماں اْس کی پیدائش کے وقت مر جاتی ہے باپ دوسری شادی کر لیتا ہے تو دوسری ماں سے پیدا ہونے والے بچے اْس کے بہن بھائی نہیں سمجھے جاتے اْسے پاکستانی شہریت کے حصول میں بہت سی ایسی دشواریاں پیش آتی ہیں کہ وہ اپنی پیدائش پر ندامت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس صورتحال میں اْسے شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ پاکستانی ہے اور اْس کا کوئی خونی رشتہ دار موجود نہیں ہے۔ یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ جس کے سینے پر تمغہ ِ جنگ آویزاں ہو اْسے بھی پاکستانی ہونے کے لیے 2 حلف نامہ داخل کرنے ہوتے ہیں۔

ایسے موقع پر ہمیں ایک انگریز کی کتاب یاد آنے لگتی ہے جس نے لکھا تھا کہ جمہوریت انڈیا کے شہریوں کے لیے نہیں ہے اور دلیل کے طور پر اْس نے ایک ایسے مقدمے کا حوالہ دیا تھا جس میں ایک زمیندار کے 200 مویشی چوری ہو گئے تھے اس انگریز افسر نے چوری کا معاملہ تو سْلجھا دیا مگر خود اْلجھ گیا کیونکہ جس کے مویشی چوری ہوئے تھے اْس نے کہا کہ یہ مویشی میرے نہیں ہیں انگریز آفیسر کے مزید تحقیق کی تو یہ جان کر حیران رہ گیا کہ مویشی تو اسی زمیندار کے ہیں انکار کی وجہ یہ ہے کہ مسروق زمیندار زیاد ہ طاقتور ہے وہ مویشی لے کر اْسے ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔

کانگریس اور مسلم لیگ آزادی کے لیے سرگرم عمل تھیں تو مسٹر چرچل نے کہا تھا کہ انڈیا کے لوگوں کو آزادی دینے سے قبل جمہوریت پسند قوم بنایا جائے ورنہ… یہاں کا بااثر طبقہ جمہوریت پنپنے نہیں دے گا۔ جمہوریت کے نام پر ایسے آمرانہ اقدام کرے گا کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی اپنی عیاشیوں کے لیے ٹیکسوں کی بھر مار کر دے گا، سانس لینے کے سوا ہر چیز پر ٹیکس لگائے گا اس تناظر میں ہم پاکستان کی جمہوریت کا جائزہ لیں تو مسٹر چرچل کی رائے گا قائل ہونا پڑے گا۔ یہ حقیقت بھی ناقابل ِ تردید ہے کہ شریف خاندا ن کا سیاست میں آنا ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کو حکومت کے جبرسے محفوظ رکھنا ہے کیونکہ ذوالفقار علی بْھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں قومیانے کی جو پالیسی وضع کی تھی اْس نے صنعت کاروں کو دیوالیہ کر دیا تھا۔

عمران خان بھی سیاست میں اسی جذبے کے تحت آئے تھے کیونکہ وطنِ عزیز میں سیاست ہی ایسی تجارت ہے جو ہلدی اور پھٹکری کے بغیر ایسا چوکھا رنگ لاتی ہے جسے بے رنگ نہیں کیا جاسکتا۔ اْنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں عزیزو اقارب کو اتنا نوازا کہ اْن کی سات نسلیں بھی نوازی گئیں۔ ککھ پتی لکھ پتی بن گئے، ارب پتی کھرب پتی بن گئے۔

بلدیہ کا رکن ہو یا رکن ِ اسمبلی دولت اْس کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے۔ معذرت ہم لونڈی کا لفظ غلط استعمال کر گئے دراصل ہم یہ کہنا چاہتے تھے کہ دولت اْس کی کنیز بن جاتی ہے۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ سیاست سے وابستہ شخص قانون سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ ملک دشمنی کرے یا قوم دشمنی سزا اْس کا مقسوم نہیں ہوتی۔ عام آدمی ایک روٹی بھی چرا لے تو قانون حرکت میں آجاتا ہے خاص آدمی اجناس کے گودام کے کودام بھی چْرا لے تو کوئی نہیں پوچھتا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ احتساب کا عمل عام آدمی کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خاص آدمی فطرت کے اعتبار سے یہودیت پر عمل پیرا ہوتا ہے جس طرح یہودی خود کو خدا کی محبوب اْمت سمجھے ہیں اسی طرح وطن ِ عزیز کا خاص طبقہ خود کو خدا کی محبوب مخلوق سمجھتا ہے۔ جب تک اس سوچ کو ختم نہیں کیا جاسکتا ملک سے غربت ختم نہیں ہوسکتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کون کرے گا؟ بقول شخص سے چوہے بلی کے گلے میں گھنٹی نہیں باند ھ سکتے۔