غزہ میں جاری درندگی اور نسل کشی کو چھے ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، جو ویڈیو اب تک آئی ہیں ان میں عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے، جس حال میں شہید اور زخمی ہیں، ان مناظر پر کوئی بھی درد دل رکھنے والا نظر ڈالنے کی تاب نہیں لا سکتا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد بھی اسرائیل باز نہیں آیا، چہار اطراف سے بشمول اسپتال بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ میں اب تک 32 ہزار سے زاید شہید اور 25 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمیوں کو فوری اسپتال میں داخلے کی ضرورت ہے، ادویات کی قلت کا یہ حال ہے کہ زخمیوں کے آپریشن بے ہوش کیے بغیر کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس وقت بھوک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جنہیں کھانے کے لیے کہیں کچھ میسر نہیں انہیں جمع کر کے اوپر سے ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کر کے ان کی بے بسی اور بے کسی کا تماشا دیکھا جا رہا ہے۔ تین لاکھ پچاس ہزار چھوٹے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ان میں 50 ہزار بچے سخت ترین غذائی قلت اور مہلک ترین بھوک کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں 30 سے 35 بچے بھوک سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ یہ معمولی سانحہ نہیں یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار ایسی خواتین ہیں جو ماں بننے کے مراحل میں ہیں یا ماں بن چکی ہیں، حالات کی ستم ظریفی نے ان ماؤں کو کھانے کے لیے دو روٹیوں سے بھی محروم کر دیا ہے لیکن اس سب کے باوجود بھی انہیں بچوں کی کفالت کرنی ہے۔ 20 ہزار بچوں کی پیدائش ابھی حال ہی میں ہوئی ہے، وہ ولادتیں کس حال میں ہوئی ہوں گی اس صورتحال کا بآسانی ادراک کیا جاسکتا ہے۔ مغرب کی دنیا میں دیکھیے تو کتوں کو کیسے پالتے ہیں؟، یوں سمجھ لیں انہیں انسان کی طرح ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس کتے، بلیوں اور جانوروں کے حقوق ہیں لیکن غزہ کے مسلمان ان جانوروں سے بھی زیادہ گئے گزرے سمجھ لیے گئے ہیں۔ یہ تو اسلام دشمن رویہ ہے لیکن پونے دو ارب مسلمانوں کے قبرستان میں بھی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی، مسلمان حکمران کیا کر رہے ہیں؟۔ اگر پاکستان جیسے مسلمان ملک میں حکومت کچھ نہیں کر رہی تو یہاں سیاسی جماعتیں اور مذہبی پیشوا کیا کر رہے ہیں؟۔ دیگر مسلم حکومتوں اور حکمرانوں سے توقعات رکھنا تو عبث ہے، وہاں تو عالم یہ ہے کہ مسلمان ملک ملائیشیا جہاں گزشتہ دنوں مقابلہ حسن کا انعقاد ہوا جس میں سعودی ماڈل نے بھی شرکت کی اور اب یہی سعودی ماڈل عالمی قابل حسن میں بھی سعودی عرب کی نمائندگی کے لیے نامزد کر دی گئی ہیں۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اپنے سیاسی آنکھ مچولی کے کھیل سے فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ آج اقتدار میں شریک اور اقتدار سے محروم سیاستدان ایک دوسرے کو نہ معاف کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ صلح کے لیے تیار۔ الیکشن 2024 کے نام سے جو ڈراما ہوا اگر کسی متفقہ فیصلے پر فوری طور سے نہیں پہنچا جا رہا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ کم از کم رمضان کی حد تک ہی یہ سیاستدان آپس میں ’’سیز فائر‘‘ کر کے اہل غزہ کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے کچھ مل جل کر اس طرح کرتے کہ پوری دنیا میں ایک پیغام جاتا کہ مسلمان متحد ہیں اور اہل غزہ کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہاں تو سب کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے۔
رمضان کے آخری عشرے کی شروعات ہیں، مولانا فضل الرحمن کی اقتدار سے دوری اب زیادہ غضبناک لب و لہجے سے عیاں ہے۔ اقتدار سے محرومی اور سیاسی زیادتیوں کے حوالے سے انہوں نے جلسوں اور سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ طاقت اور توانائی انہیں اہل غزہ کے حوالے سے صرف کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی، مسجد اقصیٰ کی آزادی اور اہل غزہ کی نسل کشی کے حوالے سے ان تینوں کی پالیسی معنی خیز خاموشی اور اپنے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔
مذہبی حلقوں کے حوالے سے اگر مفتی تقی عثمانی اور مولانا طارق جمیل اپنے لاکھوں معتقدین اور مولانا سعد رضوی و دیگر اکابرین اپنے لاکھوں جاں نثاروں کو ساتھ لیے اگر گھروں سے باہر سڑکوں پر نکلتے اور رسول اللہ کی امت پر ہونے والے مظالم اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اور مسلمانوں کو اس نسل کشی سے نجات کے لیے اسلام آباد میں احتجاج کرتے تو ان کا احتجاج نہ صرف بہت موثر ہوسکتا تھا بلکہ پوری دنیا کا میڈیا متوجہ ہوتا جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں مقیم مغربی دنیا کے سفارتی نمائندے یقینی طور سے احتجاج میں شریک شرکا کے جذبات اور ردعمل اپنی حکومتوں کو رپورٹ کرتے اور بہت کچھ سوچنے پر ان کو متوجہ کرتے۔ حدیث کی رو سے ایمان کے تین درجے ہیں، رمضان المبارک میں قرآن سے تعلق کے باوجود آخر ہم کمتر درجے کے ایمان پر ہی کیوں اکتفا کیے ہوئے ہیں؟۔ ربّ کریم کا تو یہ فرمان ہے ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر کرنے والے ہیں‘‘۔ (آلِ عمران: 142)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غزہ دور ہے سوائے دعا کے ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں، یہ تو اپنے آپ کو سمیٹنے والی بات ہے، پھر تو آپ سکڑتے ہی جائیں گے۔ اگر غزہ دور ہے تو جس وقت پاکستان میں سیلاب آیا تھا تو اس وقت ہماری کون سی سیاسی یا مذہبی جماعتیں اور رہنما اور پیشوا سیلاب زدگان کے ساتھ کھڑے تھے؟، سوائے اپنی سیاسی دوکان چمکانے، سیاسی جلسے کرنے اور مذہبی پیشوائی کے اور کیا کر رہے تھے؟۔ اصل چیز فرض کی پکار پر لبیک کہنا ہے، جذبہ ہو تو فاصلے اہمیت نہیں رکھتے۔
گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد نے اسلام آباد ڈی چوک پر اہل غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم زخمیوں کو علاج کے لیے اپنے خرچ پر پاکستان لانا اور امدادی سامان کی رسائی غزہ میں بلا روک ٹوک جاری رکھنا چاہتے ہیں، حکومت پاکستان سفارتی مدد اور سہولت کاری کرے۔ ہم تو صہیونیوں کو اور اسرائیلی فوج کو ہی کوستے رہتے ہیں لیکن اس موقع پر پولیس نے جو سلوک مظاہرین کے ساتھ کیا، مذمت اور افسوس کے سوا اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
اس صورتحال میں جماعت اسلامی نے 30 مارچ کو کراچی میں لاکھوں مرد، خواتین اور بچوں کے ساتھ رمضان کے بابرکت مہینے میں فریضہ شب بیداری ادا کیا اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا- امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے شب بیداری کے توسط سے دعا کی کہ ’’اللہ تعالیٰ فلسطینی بچوں بڑوں کی مدد فرما اور اس بات کا اعلان کیا کہ غزہ میں ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائی جاتی رہے گی، انہوں نے کہا کہ کوئی بولے یا نہ بولے ہم اپنے حصے کا چراغ جلاتے رہیں گے، فلسطین کے ساتھ ہمارے رشتے کو کوئی نہیں توڑ سکتا، فلسطین کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنی ہے، پوری دنیا تک پیغام پہنچانا ہے‘‘۔
دین صرف نماز روزہ کا نام نہیں، دین کے پیروکار ہونے کے حوالے سے ہم سب امت کا حصہ ہیں اور حدیث کی رو سے امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، جس طرح جسم کے ایک عضو میں تکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی قائدین کا فریضہ بنتا ہے کہ بیانات اور تقاریر سے آگے بڑھ کر جو اپنی حدود میں کر سکتے ہیں وہ کر گزریں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا ربّ اس امریکی فوجی کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے جس نے امریکا میں اسرائیلی سفارت خانہ کے سامنے اس ظلم و درندگی کے خلاف اپنے آپ کو سپرد آتش کیا جو اس دنیا سے جاتے جاتے امت مسلمہ کو پیغام دے گیا، اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کیا احتجاج بھی نہیں کر سکتے؟۔ کیا ہم اور ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں، رہنما اور پیشوا اس امریکی فوجی سے زیادہ گئے گزرے ہو گئے ہیں؟۔