وطن عزیز کئی سال سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ اس وقت ریاست پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، آٹھ فروری کے عام انتخابات کے ذریعے ایک مخلوط حکومت تو قائم ہوگئی ہے مگر اس حکومت کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، ساتھ ہی یہ حکومت ایک ایسی دلدل میں قائم ہوئی ہے جس میں پاکستانی عوام کا مینڈیٹ چوری ہونے کے سنگین الزامات عائد ہیں حزب اقتدار کی جماعتیں بھی یہ جانتی ہیں کہ ان کو اقتدار سونپا گیا ہے موجودہ حکومت خود بھی بوکھلاٹ کا شکار ہے، ہر جانب سے سیاسی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ مخلوط حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے کرسی بچانے کی فکر میں ہے تو حزب اختلاف بھی سڑکوں پر احتجاج کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام پر مہنگائی کے بم برسا دیے ہیں۔ پورے ملک میں گیس کا بحران کئی ماہ سے چل رہا ہے جس پر اقدامات کے بجائے گیس کے بلوں میں ہوش رُبا اضافہ کیا جارہا ہے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں گیس کا سنگین بحران ہونے کے باوجودہ گیس کے ہزاروں روپے کے بلوں نے گیس صارفین کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے جس پر خاتون وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا جارہا۔ رمضان بازار میں بھی عوام کو نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے ریلیف فراہم کرنے کے دعوے دھرے رہ گئے ہیں جبکہ پنجاب کے عوام کو نو منتخب وزیر اعلیٰ سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں کہ وہ پنجاب کے عوام کو ماضی کی حکومتوں سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ مخالفین کو یقین ہے کہ مریم نواز ایک ناکام وزیر اعلیٰ پنجاب ثابت ہوں گی کیوں کہ ان کے پاس اتنا اہم حکومتی عہدہ چلانے کی کوئی اہلیت نہیں یقینا مخالفین کا یہ دعویٰ اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے مگر اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا منصب مریم بی بی کے گھر کی ملکیت رہا ہے، نواز شریف اور شہباز شریف دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے پھر حمزہ شہباز اور اب پنجاب مریم نواز۔ اگر عوامی خدمت کی نیت درست ہے تو مریم بی بی کے پاس وزیر اعلیٰ کے منصب کو چلانے کے لیے ایک اچھا تجربہ گھر میں موجود ہے جس سے پنجاب کے عوام کی بھر پور خدمت کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ مریم نواز اپنے مخالفین کے لیے ایک سخت ردعمل رکھتی ہیں ان کی جانب سے سیاسی انتقام بھی دیکھا گیا اور اس وقت بھی دیکھا جارہا ہے۔ اگر مریم نواز پنجاب سمیت ملک بھر میں سیاسی استحکام قائم کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں تو یقینا ان کو کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ یقینا ماضی کی حکومتوں کی جانب سے ن لیگ کو سخت سیاسی مخالفت کا سامنا رہا ہے، ذاتی طور پر بھی شریف خاندان کو سخت مراحل سے گزارنا پڑا جلاوطنی سمیت کرپشن کے سنگین الزامات شریف فیملی پر عائد کیے گئے جن میں سزائوں کے بعد ریلیف ملا مگر اذیت کے لمحات شریف فیملی کا مقدر بنا آج بالکل ویسا ہی تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اب اس کو مکافات عمل کہا جائے یا سیاسی انتقام اس کا فیصلہ بھی مستقبل میں یقینا ہو جائے گا۔
البتہ اس وقت ملک و قوم کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے اس کا سدباب کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے جو موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ملک کو کئی سال سے مہنگائی بے روز گاری کا سامنا ہے ساتھ ہی ادویات کی مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی بات کی جائے تو حکومت کی جانب سے ادویات کی بہتر فراہمی کو ممکن بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر ان اسپتالوں میں بیٹھے سرکاری عملے نے عوام کا جینا مشکل کیا ہوا ہے۔ اسپتالوں میں سفارشوں پر آئے ہوئے ڈاکٹرز اور نچلے اسٹاف نے عوام کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو فوری ایکشن لینا چاہیے۔ ساتھ ہی پنجاب ٹریفک پولیس کی غنڈہ گردی نے غریب عوام کو تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شام ہوتے ہی راولپنڈی مری روڈ پر ٹریفک پولیس ٹریفک کی آمدو رفت کو بہتر بنانے کے بجائے موٹر سائیکل والوں سے رشوت لینے میں مصروف دکھائی دیتی ہے جس پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کو ایکشن لینے چاہیے ایسے بہت سے عوامی مسائل حکومت پنجاب کی توجہ کے منتظر ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے پیش نظر پنجاب کے عوام کو درپیش مسائل اہم ترین ٹارگٹ ہونا چاہیے۔ پنجاب میں گیس، بجلی کے مسائل، ٹریفک قوانین اور پولیس اصلاحات سمیت مہنگائی بے روز گاری کا خاتمہ اہم ترجیحات ہونی چاہیے۔ یقینا مریم نواز اگر سیاست میں مثبت سمت کا تعین کریں تو وہ پنجاب کی ایک بہتر خاتو ن وزیر اعلیٰ پنجاب ثابت ہوسکتی ہیں سیاست کی بھینٹ غریب عوام کو چڑھانے سے بہتر ہے کہ سیاسی اختلاف کو پس پشت ڈال کر عوام کے مسائل حل کریں تاکہ عوام کے دلوں پر راج کیا جاسکے ہم سمجھتے ہیں کہ مریم نواز ایک بہتر وزیر اعلیٰ ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔