دنیا کے مذاہب میں انسان کی فطرت کے متعلق طرح طرح کی باتیں کہی گئیں ہیں، بعض نے اس کو ’’پیدائشی گناہ گار‘‘ قرار دیا کہ جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے کہ خداوند تعالیٰ نے انسان کو پیدائشی طور پر گناہ گار پیدا کیا ہے۔ دنیا میں اس کا فرض ہے کہ وہ نیکی اور بھلائی کے کام کرے اور اپنے گناہوں کی تلافی کرے۔ یسوع مسیح اسی گناہ گار انسان کی گناہ آلودہ فطرت اور اس کے گناہوں کے کفارہ میں صلیب پر چڑھ گئے۔ بعض مذاہب انسان کو لوحِ سادہ قرار دیتے ہیں کہ وہ نیک ہے نہ بد، اچھا ہے نہ برا، خارج کے اچھے بُرے اثرات اس کے باطن کو گندہ اور تاریک کردیتے ہیں یا اُجلا اور روشن۔ بعض مذاہب میں جسم ہی کثافت ہے اور جب تک روح اس کثافت میں ملبوس و ملفوف ہے، اس وقت تک انسان گناہ گار ہے اور جب وہ اس کو ریاضتوں کے ذریعہ فنا کردیتا ہے تو روح آزاد ہوجاتی ہے، تو ان کے نزدیک انسان جسمانی طور گناہ گار ہوتا ہے اور روحانی طور پر پوّتر۔ ان کے برعکس اسلام انسان کو فطرتاً نیک تسلیم کرتا ہے کہ وہ پیدائشی طور پر نیک ہوتا ہے، اگر اسے ایک پاکیزہ ماحول ملتا ہے تو اُس کا کردار اس کی فطرت ِ اصلی کے مطابق پروان چڑھتا ہے اور اگر وہ بُرے ماحول کے اثرات قبول کر لیتا ہے تو اس کا کردار ایک خلاف فطرت کردار بن جاتا ہے جو سچی حقیقتوں سے ٹکراتا رہتا ہے۔
یہ بات پوری کائنات کی فطرت سے ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں نظم و ترتیب ہے۔ اس پورے اراضی اور سماوی نظام کا شریہ ہوتا کہ اس کا نظم و ضبط بگڑجائے جس حساب اور قاعدہ سے اپنے اپنے مدار پر یہ اجرام فلکی گردش کررہے ہیں، وہ اپنے اس مدار اور محور سے ہٹ جائیں اور اس کا خیر یہ ہے کہ پورا نظام کائنات اپنے خالق کے بنائے ہوئے ضابطہ و قاعدے کے مطابق کام کرتا ہے کیونکہ اگر وہ اس ضابطہ سے بس اک ذرا سا بھی ہٹ جائے تو سارے اجرام ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔ اس کائنات کی فطرت خیر خواہی اور خوبی نظم و ضبط حسن و ترتیب پر قائم ہے اس طرح انسان کا ضمیر بھی حسن اور نیکی سے گوندھا گیا ہے۔ اس کو نہ تو پیدائشی طور پرگناہ گار بنایا گیا نہ پیدائشی طور پر راست رو۔ اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنی فطرت اصلی کے مطابق نیک اور راست رو بن جائے اور چاہے تو اپنے لیے برائیوں اور خرابیوں کی راہ اختیار کرے۔ پہلی صورت میں اس کو اپنی فطرت اور اس کے اپنے کردار میں کوئی متضاد عنصر نہیں رہے گا۔ اس لیے اس کی روح مطمئن اور آسودہ رہے گی اسے ایک طرح کی اندرونی و باطنی مسرت و طمانیت حاسل رہے گی۔ اس کے برعکس اگر وہ غلط کاریوں اور بد اعمالیوں کو اختیار کرے گا تو اس کا یہ کردار اس کی فطرت اصل کے مطابق نہ ہوگا، اور فطرت و کردار کا یہ تضاد اسے بیقرار و مضطرب رکھے گا اور اسے سچا سکون اور حقیقی راحت میسر نہ آئے گی۔ اسلام کو اسی لیے دین فطرت کہا گیا ہے کہ وہ اس کائنات کی اور انسان کی فطرت کے عین مطابق زندگی کا ایک نظام ہے جو انسان کے افعال اور اعمال، نظریہ و کردار کو اس کی شخصیت کو فطرت اصلی کے مطابق ڈھا ل دیتا ہے۔
فرمودۂ الٰہی ہے، ’’پس (اے نبی اور نبی کے پیرو) یک سو ہو کر اپنا رُخ اس دین کی سمت میں جمادو۔ قائم ہو جائو اس فطرت پر جس اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ یہی بالکل راست اور درست دین ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (قائم ہو جائو اس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اس سے اور نماز قائم کرو اور نہ ہوجائو ان مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس میں مگن ہے۔ (الروم)
بخاری و مسلم میں حدیث رسول ہے کہ ’’ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لیکر نہیں آتا بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بناء پر اس کے کان کا ٹتے ہیں‘‘۔
آپ نے فرمایا: ’’ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)