روزہ کا عمل

356

جب ہم نے کہتے ہیں کہ روزہ آسان ہے، تو کوئی کہہ سکتا ہے بھلا کیسے آسان ہے؟ رمضان میں تراویح کی رکعتیں پڑھنا ہوتی ہیں، پھر کچی نیند سوتے ہیں اور آخر رات بے وقت اٹھ کر سحری کھاتے ہیں، پھر جو منہ بند ہوتا ہے تو شام کو ہی کھلتا ہے۔ سردیوں میں ویسے ہی اشتہا تیز ہو جاتی ہے، بھوک کی وجہ سے معدہ جلنے لگتا ہے، سربھاری بھاری ہوتا ہے، اتنی ساری مشقتیں ہیں، اور بس کہہ دیا روزہ آسان ہے! اور دوسری عبادتیں مشکل ہیں۔

ہم نے جو کہا کہ روزہ آسان ہے تو اس پہلو سے عرض کیا تھا کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا جبکہ دوسری فرض عبادتوں میں بہت کچھ کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ سب عمل و حرکت پر ہی مشتمل ہیں صرف روزہ ایک ایسا فرض ہے جس میں کوئی حرکت و عمل نہیں، وہ ایک معدوم اور خاموش سی عبادت ہے جو بے کیے دھیرے دھیرے مسلسل جاری رہتی ہے اس معنی میں اب بھی ہم کہتے ہیں کہ روزہ آسان عبادت ہے۔

اب جو آپ نے تراویح کی ۲۰ رکعتوں کا بے خوابی کا بے وقت کھانے کی زحمتوں کا ذکر کیا ہے تو یہ سب روزہ میں کہاں شامل ہیں! کیونکہ اگر کوئی تراویح نہ پڑھے،اور آج کل تو بے تراویح کے روزہ داروں کی تعداد کچھ زیادہ ہی ہے، تو اس کا روزہ ادھورا نہیں رہ جاتا وہ پورا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی گہری نیند سوئے سحر کو نہ اٹھے، بے کھائے پیے ہی روزہ رکھ لے بھی تو روزہ میں فرق نہ آئے گا۔ روزہ ہو جائے گا یہی نہیں بلکہ روزہ رکھ کر کوئی شخص پانچ وقت کی نمازوں میں سے ایک بھی نماز نہ پڑھے تو اس کا روزہ ٹوٹ نہیں جائے گا، بلکہ وہ بے سبب توڑ دے تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا۔ اصل میں روزہ نہ تراویح ہے، نہ شب بیداری، نہ سحری، نہ افطار، نہ صلٰوۃ بلکہ وہ طلوع سحر سے غروب آفتاب تک فاقہ کرنے کی حالت کا نام ہے اور اسی فاقہ کو مقررہ وقت میں آدمی نہ کچھ کھائے نہ پیے، نہ مباشرت کرے تو وہ روزہ ہے۔

روزہ فرض کیا گیا ہے، لیکن تراویح، شب خیزی، سحری اور افطار یہ سب فرض نہیں ہیں بلکہ روزہ سے متعلق جداگانہ اعمال حسنہ ہیں اور چونکہ یہ اعمال حسنہ سنتِ رسول ہیں اس لیے یہ فرض صوم میں داخل نہیں ہیں ان کا اپنا عمل ہے ان کا اپنا ثواب اور اجر ہے۔ سحری کھانا اور افطار کرنا چونکہ سنت ہے، اور سنت کی پیروی عبادت میں شامل ہے۔ اس لیے سحری اور افطار بذات خود عبادت ہیں، مگر ہم کہتے ہیں سحری اور افطار میں بھی ایک حرکت اور عمل ہے اور لقمہ اٹھا کر منہ میں رکھنا ہوتا ہے، چبانا پڑتا ہے۔ نگلنا ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے روزہ ان روزہ کشا عبادتوں سے بھی آسان ہے۔ کیونکہ اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا، یہ بے کیے کا فریضہ ہے جو اپنے آپ ادا ہوجاتا ہے، ہاں صرف اس کی نیت کرنی پڑتی ہے۔

اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چلیے جناب روزہ میں ایک عمل اور ایک حرکت کا سراغ تو لگ گیا کہ ابھی آپ نے کہا ’’اس میں نیت کرنا پڑتی ہے، نیت کرنا بھی تو ایک عمل ہے۔ بات بالکل ٹھیک ہے، مگر ذرا باریک بینی سے غور کریں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نیت روزہ میں داخل نہیں بلکہ اس سے ملحق ہے، پہلے نیت کا مطلب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ارادہ کا نام ہے۔ کسی کام کا ارادہ کر لینے کو نیت کرنا یا نیت باندھنا کہتے ہیں اور ارادہ دراصل ذہن میں ایک عمل ہے۔ یہ عمل پورا ہوجاتا ہے خواہ اس ارادہ کو زبان پر لائیں یا نہ لائیں۔ اس کا اعلان کریں یا نہ کریں اگر آپ دل ہی دل میں روزہ رکھنے کا ارادہ کرلیں تو آپ کی نیت پوری ہوجائے گی خواہ آپ زبان سے ارادہ کے کلمات ادا نہ کریں۔ اس صورت میں یہ نیت بھی ایک خاموش ذہنی عمل ہے جس میں جسمانی طور پر کچھ کرنا نہیں پڑتا۔

ہم جو روزہ کی نیت کے کلمات زبان سے ادا کرتے ہیں، وہ بلاشبہ باعث ِ برکت ہیں، ارادہ کا زبان سے دہرانے میں لطف بھی آتا ہے، ارادہ کے استحکام میں اس سے مدد بھی ملتی ہے اور وہ ایک طرح کا اقرار و اعتراف ہے، ان کلمات کو ادا کرنا چاہیے‘ ان کا ثواب بھی ہے یعنی اس ارادہ کا بھی ثواب ہے اور اس ارادے کے زبان سے دہرانے کا بھی، مگر یہ سب ثواب روزہ کے ثواب کے علاوہ ہیں‘ ان کے علٰیحدہ ثواب ملنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ روزہ کی نیت روزہ سے علٰیحدہ ایک عمل ہے۔ ہر عمل کے لیے ارادہ ضروری ہوتا ہے، مگر ارادہ خود کوئی عمل نہیں ہوتا اور ارادہ عمل سے پہلے ہوتا ہے، اس لیے روزے کی نیت بذات خود عمل نہیں ہے اور چونکہ روزہ سے پہلے ہوتی ہے اس لیے روزے میں شامل نہیں ہے۔ اگر روزہ دار روزہ رکھ لے اور نیت نہ کرے پھر جب دن چڑھے نیت کرلے تو بھی روزہ میں فرق نہیں آتا۔ یہ بات بھی خود اس کا ثبوت ہے کہ عملِ نیت فرض صوم میں شامل نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو نیت کرنے تک جتنا وقت گزارا وہ روزہ میں شمار نہ ہوتا، مگر ہم اسے روزے میں شامل کرتے ہیں خواہ نیت دہرائی ہو یا نہیں۔ دراصل رات میں اٹھنے سحر کھانے کی غرض ہی یہی تھی کہ روزہ رکھا جائے بس یہی ارادہ تھا اور یہی نیت تھی، اب اس ارادے کو دیر گئے تازہ کر نا یا زبان سے دہرانا بذاتِ خود نیت نہیں ہے بلکہ عمل نیت ہے کہ جو ارادہ ہو چکا ہے اس کو مضبوط کرنے اس کا اقرار و اعتراف کرنے اس کو مستحکم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے مختصر یہ کہ اصل نیت تو روزہ سے پہلے ہوتی ہے اس لیے وہ روزہ میں شامل نہیں ہے حالت روزہ میں نیت کو دہرانے بیان کرنے، تازہ کرنے کا عمل نہ بھی کیا جائے تو روزہ قائم رہتا ہے، اس لیے روزہ ایک ساکت و بے حرکت عبادت ہے اور سکوت عمل کی نسبت آسان ہوتا ہے، مگر اس بے حرکت عبادت کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ انسانی زندگی میں خیر کی صدہا قوتوں کو متحرک کردیتی ہے۔