جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو پھر ملک کا دستور بنانے کی سوچ نے بھی جنم لیا، مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسا ضابطہ بنایا جائے جس کے سائے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنا سفر شروع کرے۔ آغاز میں یہ اسلامی جمہوریہ نہیں تھا، تاہم بعد میں اسے یہ نام دیا گیا۔ جس طرح تعمیر اور تخریب کی قوتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور کام کرتی ہیں بالکل اسی طرح ملک میں دو قوتیں موجود رہیں، تخریب کی قوتیں اس وقت ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں، تعمیر کی قوت کے ذمہ دستور بنانا تھا، سو اس نے بنایا، تخریب کی قوت کو بھی کچھ کرنا تھا، لہٰذا اس نے بھی کچھ کر دکھایا، اس نے پہلے1956 کا آئین منسوخ کیا، پھر1962 کا، خدا خدا کرکے ملک میں 1973 کا دستور بنا، مگر اس وقت ہم آدھا ملک گنوا چکے تھے۔ 1973 کے آئین میں سب سے زیادہ زور پاکستان کے شہریوں کے انسانی حقوق پر دیا گیا ہے، تاریخ یہ ہے کہ 1973 کا دستور جب نافذ ہوا تو پھر اس کی متعدد شقیں معطل کردی گئیں۔ بس ایسے یہ بات ذہن میں آئی کیا وہ شقیں انسانی حقوق سے متعلق تھیں؟ جی ہاں کچھ ایسا ہی تھا، اور پہلی بار یہ فیصلہ بھٹو حکومت نے لیا تھا، جس دیوار کی تعمیر بھٹو حکومت نے رکھی، اس دیوار کی اٹھان میں جنرل ضیاء الحق نے اپنا حصہ یوں ڈالا کہ آئین معطل کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا کم و بیش، آٹھ سال ملک میں مارشل لا رہا۔
1985 میں غیر جماعتی انتخابت ہوئے اور محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم بنے، 1988 میں ایک بار پھر ضیاء الحق نے جمہوری حکومت برطرف کردی، اس کے تین چار ماہ بعد پھر جنرل ضیاء الحق کے چراغوں میں بھی روشنی نہ رہی، 17 اگست کو ان کی حکومت اور زندگی کا سفر تمام ہوا، گزشتہ سال حکومت نے 1973 کے آئین کی پچاسویں سالگرہ منائی، پارلیمنٹ ہائوس میں طلبہ، کسانوں، محنت کشوں، مزدوروں، خواتین کے وفود نے سیمیناروں میں شرکت کی، آئین کی پچاسویں سالگرہ کی مناسبت سے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ایک یاد گار تعمیر کی گئی، اس کی تعمیر پر کتنے اخراجات آئے، اس کی تفصیلات بھی جلد ہی سامنے آجائیں گی۔ تاہم اس یادگار کے حوالے سے چند نکات ایسے جنہیں بیان کرنا ضروری ہے۔
آئین کہتا ہے کہ ملک کی سرکاری زبان اردو ہوگی، تاہم اسی یاد گار پر آئین کے دس آرٹیکلز کا ذکر ہے، یہ انگریزی میں لکھے گئے ہیں، آئین کی پشت پر شاہراہ دستور ہے، جس پر پارلیمنٹ ہائوس، عدالت عظمیٰ، ایوان صدر کی عمارتیں ہیں، آئین پاکستان تو عوام کو بہت سارے حقوق دیتا ہے جو آئین کی کتاب کی شکل میں لکھ دیے گئے تھے لیکن مبصرین کے مطابق زمینی حقائق ان سے کہیں متصادم نظر آتے ہیں۔ آئین سے پاکستان کے شہری کا رشتہ ہے؟ آئین مملکت یا ریاست کے لیے کیوں ضروری ہے؟ یہ یادگار انہی تمام باتوں کا جواب دیتی ہے۔
یادگار دو اوراق پر مشتمل ایک کھلی کتاب کی مانند ہے جو یہ پیغام دیتی ہے کہ جمہوریت میں جتنی رائے اہم ہے اتنی ہی زیادہ اختلاف رائے بھی اہم ہے۔ ایک جانب ابتدائیہ لکھا ہے جو شہری سے آئین کا وعدہ کرتا ہے۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اس ’یادگار دستور‘ کا افتتاح 29 فروری کو کیا۔ اسپیشل سیکرٹری شمعون ہاشمی نے نظامت تقریب کی ذمے داری نبھائی، آئین کے منظور ہونے کے 50 سال بعد 10 اپریل 2023 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ آئین بنیادی طور پر فرد کا ریاست سے رشتہ واضح کرتا ہے۔ آئین بنیادی حقوق پر عمل درآمد کروانے سے متعلق ہے۔
یاد گار کی سات سیڑھیاں آئین کے سات شیڈول کی نشاندہی کرتی ہیں جبکہ دو سو ستہتر لائٹس اس کی دو سو ستہتر دفعات کی عکاسی کرتی ہیں۔ چار پلانٹرز چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہاں چیڑ کے درختوں کی تعداد 311 ہے کیونکہ آئین کے اندر operative articles کی تعداد 311 ہے۔ انہیں درختوں سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ آئین زندہ دستاویز ہے۔ یادگار دستور، باغ دستور میں داخل ہونے کے چھے راستے ہیں جو چار صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ زمین پر پتھروں کا انتخاب بھی سفید اور کالا کیا گیا ہے کیونکہ آئین ابہام میں بات نہیں کرتا یعنی اس میں کوئی گرے ایریا نہیں ہے۔ کتاب کا رنگ ہرا رکھا گیا کیونکہ ہرا ہماری قوم کا رنگ ہے۔ ان اوراق کے پیچھے ان سرکاری افسران اور خصوصی طور پر انتھک محنت کرنے والے ورکر عیسیٰ خان کا نام بھی لکھا گیا ہے جو تقریباً 150 کلو کے پتھر ہوا میں لٹکاتے ہوئے توازن برقرار رکھتا تھا ان اوراق کے دائیں جانب آئیں تو ایک تکون بنائی جا رہی ہے جہاں ان تمام مزدوروں، یادگار دستور بنانے والے پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی اراکین اور 1973 کا آئین بنانے والی کمیٹی اراکین کے نام بھی لکھے جائیں گے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہے، مگر آئین معطل کرنے کی راہ کون کیسے اور کس طرح روک سکے گا، یہ ذکر کہیں نہیں ملتا، ایک بار چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے اس کا جواب یہی ہے کہ صرف دو جیپیںآتی ہیں اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔