گداگری ہمارے معاشرے میں لاعلاج سرطان کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی جارہی ہے اس وقت پاکستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں گداگری جیسی لعنت موجود نہ ہو۔ قصبے ہوں، شہر ہوں، دیہات ہوں، اسپتال ہوں، بسیں ہوں، عوامی تفریح گاہیں ہوں، مساجد ہوں بازار ہوں ریلوے اسٹیشن ہوں، مزارات ہوں، یہاں تک کہ کراچی کی جامعات میں گداگر داخل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ لوگ اپنے ضمیر کو مردہ کر کے محنت سے جی چراتے ہیں اور گداگری کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں۔ گداگری کی مذمت ہمارے دین ِ اسلام میں بھی بھر پور انداز میں کی ہے اور امت ِ مسلمہ کو اس بات کی سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ اپنے صدقات خیرات فطرات زکوٰۃ ادا کرتے وقت مستحقین کا انتخاب کریں۔ ان گدا گروں کی وجہ سے اصل مستحقین کی حق تلفی ہوتی چلی جارہی ہے یہاں تک کہ یہ ناسور اس حد تک گہرا ہوچکا ہے کہ آج کل درمیانے طبقے کے سفید پوش حضرات سے زیادہ یہ پیشہ ور بھکاری کما لیتے ہیں۔ کراچی کیوں کہ پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کی وجہ سے جہاں اس کو بہت سے اعزازات حاصل ہیں وہیں پر گداگروں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں بھی کراچی سرِ فہرست ہے۔ حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کراچی میں گداگروں کی روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً آمدنی 2 سے 3ہزار تک ہے۔ گدا گروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اصل وجہ بے روزگاری ہے لیکن یہ کیوں کہ پیشہ ور گروہوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں تو یہ لوگ قصبوں، دیہاتوں اور کچے علاقوں سے بچوں کو اغواء کرکے ان کو معذوری کا شکار بنا کر سگنلز پر کھڑا کردیتے ہیں اس طرح ملک کے مستقبل کے معمار جن کے کاندھوں پر قوم و ملت کا مستقبل ہوتا ہے وہ بھی گداگری جیسی لعنت میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی مجلس ِ شوریٰ میں یہ معاملہ سینیٹ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس وقت سامنے آیا جب اجلاس میں پاکستان سے بیرون ملک جانے والے ہنرمند اور غیرہنر مند افراد کے اعدادو شمار کے حوالہ سے
سینیٹرز کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ سیکرٹری برائے اوورسیز پاکستانیز نے یہ انکشاف کر دیا کہ بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں میں ایک بڑی تعداد گداگری سے وابستہ فقیروں کی ہے جبکہ گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں 90 فی صد گداگر پاکستانی ہوتے ہیں۔ سیکرٹری اوورسیز نے بتایا کہ عراق اور سعودی عرب کے سفراء کا کہنا ہے کہ پاکستانی فقیروں کی اس بڑی تعداد سے ان کی جیلیں بھر چکی ہیں۔ ان بھکاریوں کی بڑی تعداد چونکہ عمرہ ویزے پر زیارتوں پر بھیک مانگنے جاتی ہے، اس لیے حرم شریف کے اندر سے پکڑے جانے والے جیب تراشوں میں بھی زیادہ تعداد پاکستانیوں ہی کی ہوتی ہے۔ وطن پاکستان جہاں غربت، روزافزوں مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی کے واقعات، ناانصافی اور سیاسی عدم استحکام جیسی خبروں کی وجہ سے بین الاقوامی اطلاعات و نشریات کی زینت بنا رہتا ہے وہیں گداگری کے روپ میں بیرون ملک جانے اور وہاں جیب تراشی کے جرم میں پکڑے جانے والے افراد میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے۔ گداگری کو دنیا بھر میں غیرمہذبانہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔ پیشہ ور فقیروں اور گداگروں کا تو فوری خاتمہ اس لیے بھی ممکن نہیں کہ معاشرے جب تک انسانی احترام اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے بھکاری اور گداگر پیدا ہوتے رہیں گے۔ یہ محض پاکستان کا مسئلہ نہیں ہر طرح سے بین القوامی مسئلہ ہے۔
انزیلہ قریشی
شعبہ سیاسیات
جامعہ کراچی