عشرئہ اعتکاف اور لہو لہو غزہ

630

رمضان کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے اور اس موسم کا آخری عشرہ ’’عشرہ اعتکاف‘‘ کہلاتا ہے۔ یعنی رمضان کے آخری دس دن روزہ داروں کی ایک قابل ذکر تعداد مساجد میں معتکف ہو کر شب و روز اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی اور مغفرت کی دعائیں مانگتی ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ نے مالی وسائل دیے ہیں ان کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’’ہم خرما وہم ثواب‘‘ کے مصداق عمرے کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوں اور رمضان کا آخری عشرہ بھی حرم میں معتکف ہو کر گزاریں۔ اس طرح رمضان کی برکات کو انہیں دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کا موقع ملے۔ کہا جاتا ہے کہ حج کے بعد مکہ و مدینہ میں زائرین کا سب سے بڑا اجتماع رمضان کے آخری عشرے میں ہوتا ہے اور پوری دنیا سے مسلمان کھنچے چلے آتے ہیں سعودی حکومت بھی ان کی مہمان داری میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتی۔ پاکستان سے بھی ہر سال ہزاروں یا شاید لاکھوں پاکستانی ’’عشرہ اعتکاف‘‘ منانے حجاز مقدس جاتے ہیں۔ اس سال بھی گئے ہوئے ہیں ان میں وہ تاجر اور کاروباری حضرات بھی شامل ہیں جنہوں نے رمضان آتے ہی سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے بھی اوپر پہنچادی تھیں۔ وہ رمضان کے پہلے دو ہفتوں میں عوام کو خوب لوٹتے رہے اور اب اپنی نیک کمائی کو ٹھکانے لگانے اور نیکی کمانے کے لیے ارضِ مقدس جا پہنچے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے نیکیاں سمیٹ رہے ہیں اعتکاف کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ بندہ یکسو ہو کر اپنے ربّ کی بندگی اور عبادت میں منہمک ہوجائے اور دنیاوی معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اس کا کوئی عزیز رشتہ دار یا دوست بیمار ہو تو وہ اس کی عیادت کے لیے نہیں جاسکتا اگر خدانخواستہ کوئی فوت ہوجائے تو نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوسکتا، ہاں اگر اسی مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جائے تو وہ بھی حالت اعتکاف میں نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک مدت سے اجتماعی اعتکاف کی بدعت بھی چل نکلی ہے۔ اس کا آغاز سب سے پہلے لاہور میں علامہ طاہر القادری کے ’’شہر ِ اعتکاف‘‘ بسا کر کیا تھا۔ اس میں مرد و زن کے لیے الگ الگ خیمے لگائے گئے تھے اور لوگ رونق میلہ دیکھنے کے لیے بھی ’’شہر ِ اعتکاف‘‘ کا چکر لگایا کرتے تھے۔ علامہ صاحب تو پاکستان سے ناراض ہو کر کینیڈا جا بسے لیکن ان کی جماعت لاہور میں یہ بدعت اب بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بعض بڑی مساجد مثلاً فیصل مسجد اسلام آباد میں بھی اجتماعی اعتکاف کا اہتمام کیا جاتا ہے اور کاروباری ادارے معتکفین کی سحری و افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس پروگرام کا افادی پہلو بھی ہے لیکن سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں معتکفین کو اللہ سے لَو لگانے کی مہلت نہیں ملتی اور یہی اعتکاف کا اصل مقصد ہے۔ اگر اجتماعی اعتکاف مقصود ہوتا تو سب سے پہلے اللہ کے رسولؐ اس پر توجہ دیتے اور صحابہ کرامؓ کو اپنے ساتھ اعتکاف میں شریک کرتے اور اپنے خطبات سے ان کی روحانی ترقی کو یقینی بنائے لیکن آپؐ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اعتکاف کو بندے اور ربّ کا انفرادی معاملہ قرار دے کر اسے بندے کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہؐ نے رمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف بھی کیا ہے اور دوسرے عشرے کا بھی اور اس کی وجہ آپؐ نے یہ بتائی کہ ان عشروں میں اعتکاف کا مقصد ان کی راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرنا تھاپھر بتانے والے نے بتایا کہ لیلۃ قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ چنانچہ آپؐ نے آخری عشرے میں اعتکاف کو اپنا معمول بنالیا۔ اور اب پوری دنیا میں مسلمان اسی سنت پر عمل کررہے ہیں۔
رمضان بے شک عبادت و ریاضت کا مہینہ ہے لیکن اسی مہینے کی سترہ تاریخ کو غزوہ بدر بھی برپا ہوا جو ہمیں اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ صرف صوم و صلوٰۃ ہی عبادت نہیں اس سے بھی اعلیٰ تر عبادت وہ ہے جس میں جسم و جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے اور اللہ کے آخری نبیؐ جنگی سازو سامان سے لیس اور تعداد میں تین گنا بڑے دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کی مٹھی بھر تعداد کو میدان میں پیش کرکے اللہ کے حضور سراپا فریاد بن جاتے ہیں۔ ’’اے زمین و آسمان کے مالک، اے ربّ کائنات، اگر یہ چند جاں نثار شکست کھا گئے تو اس زمین پر تیرا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہے گا۔
پھر تاریخ نے حیرت سے یہ واقعہ اپنے صفحات میں درج کیا ہے کہ کفار کا عظیم الشان لشکر مٹھی بھر اہل ایمان کے ہاتھوں خاک و خون میں نہا گیا۔ ابوجہل سمیت اس لشکر کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے اور اس معرکہ حق و باطل میں حق ہمیشہ کے لیے فتح یاب ہوگیا۔ لیکن اب ساڑھے چودہ سو سال بعد پھر ایک مرحلہ ایسا آیا ہے کہ تاریخ اسے حیرت سے تک رہی ہے۔ اب مسلمان اربوں میں ہیں، پچاس سے زیادہ ملکوں میں ان کی حکومت ہے، ان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں تربیت یافتہ فوج ہے، ایٹم بم ہے، تباہ کن ایٹمی میزائل ہیں، صف شکن ٹینک ہیں، بے حد و حساب مالی وسائل ہیں، ان کے مقابلے میں چند لاکھ کی آبادی کا چھوٹا سا اسرائیل ہے جو غزہ کے بے بس مسلمانوں پر قہر بن کر ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ ان کا بے دریغ قتل عام کررہا ہے۔ اس کے فوجی مسلمان عورتوں کی عصمت دری کررہے ہیں لیکن مسلمان حکمرانوں میں کوئی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی نہیں جو اسرائیل کو للکار سکے۔ سب مسلمان حکمران ’’وہن‘‘ کی بیماری میں مبتلا بے غیرتی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور عام مسلمان بے حسی کا شکار عمرہ و اعتکاف کے لیے مکہ و مدینہ کا رُخ کررہے ہیں حالاں کہ ان کا رُخ غزہ کی طرف ہونا چاہیے تھا۔ تاریخ میں یہ بات حیرت سے لکھی جائے گی کہ غزہ لہو لہو تھا اور 2 ارب مسلمانوں پر مشتمل امت مسلمہ ایک لاشہ بے جان بنی ہوئی تھی۔
عشرہ اعتکاف شروع ہونے والا ہے ہم بھی کچھ نہیں کرسکتے تو آئیے معتکفین میں شامل ہوجائیں۔