پاکستان میں ہر آنے والے روز کسی نہ کسی ادارے میں دوسرے ادارے کی مداخلت اور تنازع کی خبر آرہی ہے۔ ایک روز ایف سی اور ایف آئی اے کے مابین تنازع کی خبر آئی۔ اسی خبر سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اداروں خصوصاً طاقتور اداروںکو ہر معاملے ٹانگ اڑانے کی چاٹ لگ گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایف آئی اے کے معاملے میں بھی مداخلت کی۔ اس کے اگلے روز میاں شہباز شریف نے اپنے بھائی میاں نواز شریف کی تقلید یا نقل کرتے ہوئے گیس کی قیمتیں بڑھانے سے متعلق اجلاس میں قیمتوں میں اضافے پر رضامندی کے باوجود برہمی کا اظہار کیا۔ اس طرح یہ بھی کہا جاسکے گا کہ میں تو اس اضافے کے خلاف تھا لیکن اس کے اگلے روز جو واقعہ ہوا وہ پوری ریاستی مشینری کو ہلا دینے والا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا کہ خفیہ ایجنسیاں عدالتی امور میں مداخلت کرتی ہیں۔ اس خط میں چھے ججوں نے کہا ہے کہ اس مسئلے پر ججوں کا کنونشن بلایا جانا چاہیے۔ اس خط میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی۔ ان کے ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی کہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اہل کاروں نے ایک سیاسی مقدمے میں ان پر دبائو ڈالا تھا۔ واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔ اس خط میں کوئی نئی بات نہیں ہے بس نئی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے فاصل ججوں نے اپنے دستخط سے الزامات عائد کیے ہیں اور کھل کر خفیہ ایجنسیوں کے کردار پر تنقید کی ہے اور اس قسم کے الزامات کی وسیع پیمانے پر تحقیق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان ججوں نے کئی واقعات کی نشان دہی کی ہے جن میں ججوں پر تشدد اور ذہنی دبائو کے واقعات بھی شامل ہیں۔
ججوں کے خط اور اس کے ردعمل کے طور پر عدالت ِ عظمیٰ کا فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا اور دو گھنٹے کے اجلاس کے بعد اگلے دن ایک اور اجلاس کا فیصلہ ہوا۔ پھر وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات ہوگئی اور اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی بات بھی ہوگئی۔ ججوں کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں خط اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ایک سیمینار میں خطاب کے دوران سیاسی مقدمے میں آئی ایس آئی اہل کاروں کی مداخلت اور دبائو کا انکشاف پھر ان کے خلاف کارروائی سے تصدیق ہو چکی تھی کہ خفیہ اداروں کی مداخلت کہاں تک پہنچی ہوئی ہے۔ مذکورہ خط انکشاف نہیں ہے بلکہ اداروں کا اپنے دائرے سے باہر نکل کر دوسرے اداروں کے دائروں میں گھسنے کی عادت کا شاخسانہ ہے۔ ایف آئی اے اور ایف سی کے ایک دوسرے سے الجھنے کی بعد حکومت نے ایف بی آر میں کرپشن سے نمٹنے کا ٹاسک بھی خفیہ ایجنسی کو دے دیا ہے۔ اداروں کا دائرے سے نکلنا صرف عدلیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کون سا ادارہ ہے جو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت سے محفوظ ہے؟ عدلیہ چونکہ ایک مضبوط خول میں ہے اس لیے اس کے پیٹی بند بھائی اس خول کو محفوظ تر بنانے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے لیکن سیاست ایسا شعبہ ہے جس میں مداخلت کے سارے شواہد موجود ہونے کے باوجود یہ شعبہ اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ عدلیہ کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت اور اس کو روکنے کے مطالبے سے اتنا تو ہوگا کہ عدلیہ میں براہِ راست مداخلت کچھ دنوں کے لیے رک جائے گی اور عدلیہ کو بھی مطمئن کر دیا جائے گا پھر کچھ ہی عرصے میں مرضی کے ججوں کے ذریعے یہی کھیل شروع کر دیا جائے گا۔ اگر عدلیہ اپنے ادارے سمیت تمام اداروں میں کسی بھی طاقتور ادارے کی مداخلت کو بند کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کیس کی بنیاد پر نہایت سنجیدگی سے غور کرکے تمام فریقوں کو طب کرکے مستقبل کے لیے واضح اور دو ٹوک فیصلہ سنا دینا چاہیے اور اس غلطی یا اداروں کے معاملات میں مداخلت کو آئین کی دفعہ 4 کا حصہ بنا دینا چاہیے یا اس کے مساوی سزا تجویز کرنا چاہیے کہ جو ادارہ ایسا کرے گا اس کے سربراہ سمیت تمام لوگوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ چھے ججوں نے خط لکھ کر گھنٹی تو فراہم کر دی ہے اب اسے ایسے اداروں کے گلے میں باندھنے کا مرحلہ ہے جو ہر کام میں مداخلت کرتے ہیں۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا کون سا ادارہ ایسا ہے جہاں ایجنسیوں کی مداخلت نہیں ہے۔ پولیس، ایف آئی اے، عدلیہ، تمام وزارتیں، الیکشن کمیشن، ملکی انتظامیہ، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، تحصیل دار، پٹواری، کھیل، تجارت، کسٹم، انکم ٹیکس، ایف بی آر جس شعبے کا قصہ نکالیں مداخلت کا واقعہ مل جائے گا۔ یہ شور صرف اس لیے مچا ہے کہ چھے ججوں نے خط لکھ دیا لیکن اس سے بہت سے لوگ یہ مطلب لے رہے ہیں کہ عدلیہ نے نوٹس لے لیا ہے۔ اب عدالتی امور میں ایجنسیوں کی مداخلت ختم ہو جائے گی۔ ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ عدلیہ کے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ بھی ابتدائی ردعمل کے مقابلے میں ذرا نرم نظر آیا کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ لیکن چھے ججوں نے تو مداخلت کی مثالیں پیش کی ہیں صرف برداشت نہ کرنے کے اعلان سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ عدالت نے حقیقی معنوں میں نوٹس لیا ہے تو اسے ایکشن لینا چاہیے تھا۔ اداروں کا حدود سے تجاوز کرنا پرانا مسئلہ ہے اور اس کے ذمے دار خود ادارے ہیں۔ سب سے بڑے ذمے دار تو خود سیاست دان ہیں جو رفتہ رفتہ سیاست دان نہیں رہے ایجنسیوں کے کاشتہ پودے بن گئے ہیں۔ وہی اپنے اقتدار کے لیے ایجنسیوں کی مدد حاصل کرتے ہیں اور دوسرے کی حکومت گرانے کے لیے ایجنسیوں کے در پر حاضری دیتے ہیں۔ آنے والی حکومت میں اپنے حصے کے لیے پھر حاضری دیتے ہیں۔ ان اداروں کی ناراضی سے بچنے کے لیے ہر وقت ان کی چاپلوسی میں مصروف رہتے ہیں۔ جس طرح ججوں نے خط لکھا ہے اس طرح پارلیمنٹ سے بھی کبھی کبھی آواز آجاتی تھی کہ مداخلت قبول نہیں۔ لیکن اب اس کا اچھی طرح انتظام کر لیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایسی کوئی آواز نہیں گونجے۔ اگر پارلیمان فیصلہ کر لے کہ وہ خود اور کسی ادارے کے دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنے دے گی تو پھر ججوں یا دوسرے اداروں کے لوگوں کو خط لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ عدلیہ کو بھی اعلامیہ جاری کرنے سے زیادہ اندرونی طور پر مضبوطی پر توجہ دینی ہوگی کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے عملاً کسی کی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ عدلیہ، پارلیمان یا کوئی سرکاری ادارہ صرف اس لیے مداخلت قبول کرتا ہے کہ اس کے اپنے معاملات بھی درست نہیں ہوتے۔ سب اپنے اپنے معاملات درست رکھیں، ہاتھ صاف رکھیں، ایمان داری سے کام کریں تو کون مداخلت کر سکتا ہے۔