اسرائیل اور شیخ سعدی کی حکایتیں

568

آج کے دور میں استعماری طاقتوں کا ساتھ جس طرح مسلمان ملکوں کے حکمران دے رہے ہیں جس طرح وہ اس ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں وہ بھی ان استعماری قوتوں کے ساتھ شریک ہیں جب بھی انصاف کی قوتیں بیدار ہوں گی جب بھی مظلوموں کی آہیں اثر پزیر ہوں گی ان طاقتوں کا حساب کتاب جب بھی لیا جائے گا ان کے ساتھ ان استعماری قوتوں کے معاون ومددگار بننے والے مغربی میڈیا کو بھی ان سزائوں میں شریک کیا جائے گا۔ جس کی مستحق مغربی استعماری قوتیں ان کے پروردہ مسلمان ملکوں کے حکمران ہوں گے۔ آج غزہ کے ایک ہزار سے زیادہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں کی لاشوں پر رونے والوں کی سسکیاں عرش تک پہنچ رہی ہیں اور وہ اس برے وقت کی نشاندہی کررہی ہیں۔ جناب سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں دمشق کی جامع مسجد میں سیدنا یحییٰؑ کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھا تھا کہ ایک عرب ملک کا بادشاہ وہاں آیا اور نماز ادا کرنے کے بعد دعا میں مشغول ہوگیا اس بادشاہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ عوام پر بہت سختی کا برتائوں کرتا ہے۔ دعا کے بعد اس نے مجھ سے بھی دعا کی درخواست کی کہ ایک دشمن کی طرف سے بہت خطرہ ہے میرے حق میں دعا فرمائیں کہ آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ میں نے بادشاہ کی بات سنی تو اس سے کہا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ طاقتور کسی کمزور کا پنجہ مروڑ دے جو عاجز پر رحم نہیں کرتا اس پر کسی وقت بھی برا وقت آسکتا ہے۔ یہ تو نصیحت برے وقت کے لیے تھی۔ اسی طرح سعدی فرماتے ہیں کہ ایک دن حجاج بن یوسف نے ایک بزرگ سے دعا کی درخواست کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں، بزرگ نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ اس شخص کو موت دے دے۔ حجاج یہ سن کر بہت حیران ہوا کہ آپ نے میرے حق میں یہ کیسی دعا کی۔ بزرگ نے فرمایا تیرے اور مسلمانوں کے حق میں یہ ہی دعا تیرے لیے سب سے اچھی ہے کہ تیری موت جتنی جلدی آئے تو تیرا نامہ اعمال مزید سیاہ نہ ہوگا۔ اور عام مسلمانوں کے لیے یوں کہ جب تو مرجائے گا تو انہیں تیرے ظلم و ستم سے نجات مل جائے گی۔ آج کے دور میں مسلمانوں پر بالعموم اور غزہ کے عوام پر بالخصوص جو ظلم ہورہے ہیں ان قوتوں کے نام نہاد انسانی حقوق کی پاسداری کو ننگا کررہے ہیں اس سے ان قوتوں اور ان شریک مسلمان حکمرانوں اور مغربی میڈیا کا چہرہ نمایاں ہورہا ہے اس میں مغربی میڈیا ان کے پروردہ حکمران اور ان کے ساتھ مسلمان ملکوں کے شہزادے جن کی کل تعداد 12 ہزار سے زائد بھی نہیں ہے وہ اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اس پر شیخ سعدیؒ کی نصیحت صادق آتی ہے جو طاقتور پر ظلم کرے اس پر برا وقت کبھی بھی آسکتا ہے ان کی دراز رسی کسی بھی وقت کھینچ سکتی ہے۔ نامعلوم پہلے کسی کو اس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مسلمان حکمرانوں کا موجودہ دور کے سب سے پسندیدہ عالم دین مولانا طارق جمیل نے اپنے خطاب میں ایک بار فرمایا کہ اللہ نے ہر دور میں مختلف امتوں کو اتارا مگر تمام امتوں میں مسلمان بہترین امت قرار پائے اور یہودی سب سے بدترین امتوں میں شمار ہوئے جس کی وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل پر جب سہولتیں نازل کیں ان پر من و سلوا اتارا جاتا مگر جب وہ امت نافرمان ہوئی تو اس کو بدترین عذاب میں بھی مبتلا کیا گیا مگر مسلمانوں کو ان کے گناہوں کے باوجود بخشش کے راستے بھی مہیا کیے گئے اور مسلمانوں کو صرف امت مسلمہ ہونے کی وجہ سے چار فضیلتیں بھی دیں جس کی وجہ سے بقول مولانا طارق جمیل مسلمانوں کا ہر فرد تمام دوسری امتوں کے مقابلے میں چار پھولوں والا جنرل ہے جس طرح فوج میں چار پھول والا جنرل ہوتا ہے۔ اس ہی طرح ہر مسلمان پوری امتوں میں جنرل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ مردود بنی اسرائیل ہوئے ہیں۔

مولانا طارق جمیل سے پہلے ایک اور اسلام کے بہت بڑے عالم ڈاکٹر اسرار احمد تھے جن کے علم اور فضیلت ی تمام عالم اسلام میں بہت قدر کی جاتی تھی۔ انہوں نے ایک بار اپنے خطاب میں فرمایا کہ امت مسلمہ اور خاص طور پر اسلام کے مراکز عرب جب راہ سے بھتکنے لگیں گے تو ان کو جو حزیمت اٹھانی پڑے گی وہ یہودیوں کے ہاتھوں ہو گی، یعنی سب سے زیادہ فضیلت والی امت کو اللہ سب سے مردود امت کے پیروکار یہودیوں کے سب سے مردود امت کے پیروکار یہودیوں کے ہاتھوں ذلت اٹھانی پڑے وہ یہودیوں کے ہاتھوں تاراج ہوں گے۔ جب ان کو سزا ہوجائے گی تو دنیا میں ہی ان کے گناہوں کی سزا مل جائے گی اس طرح امت مسلمہ خدا کے عذاب عظیم سے بچ جائے گی جس طرح کے عذاب دوسری امتوں پر آئے مگر اللہ کے عذاب سے بچ کر رہنے والی یہ امت دنیا میں ہی سزا اس طرح پائے گی جس طرح بقول ڈاکٹر اسرار کے راجپوت کو جب بھی سزا دی جاتی تو اس کے سر پہ جوتا کسی راجپوت سے نہیں بلکہ علاقے کے چمار سے لگوایا جاتا اسی طرح اللہ کی سب سے مردود قوم سے ان عربوں کو سزا دی جائے گی جو کہ اب ایک اسرائیل کی شکل میں ایک ملک کی حیثیت سے علاقے میں طاقتور بن گئے ہیں، یعنی اس عذاب زدہ قوم کو اللہ نے قائم ہی اس لیے رکھا تھا کہ ان سے وہی کام لیا جائے جو چمار سے راجپوت کو سزا دینے کا کام تھا یہ کام لینے کے بعد جب مسلمانوں کو ہوش آئے گا۔ تو پھر ان کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی بچی کچی امت کا خاتمہ ہوگا۔

ہم نے دو بڑے عالموں کی آرا مسلمانوں اور یہودیوں کے بارے میں بیان کردی۔ اس موقع پر ہمیں پھر شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت یاد آرہی ہے کہ اسرائیل کا وجود فلسطین میں کیسے ہوا ہوگا۔ حکایت ہے شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا کہ بچھو کی پیدائش عام جانداروں کی طرح نہیں ہوتی، جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں کچھ بڑا ہوجاتا ہے تو وہ اپنی ماں کا پیٹ اندر سے کاٹنے لگتا ہے اور یوں سوراخ کرکے ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے۔ شیخ سعدیؒ فرمانے لگے کہ میں نے یہ بات ایک عالم کے سامنے رکھی تو انہوں نے فرمایا کہ یہ بات درست ہو گی بلکہ درست ہوئی، چاہے کہ بچھو کی فطرت اور عادت پر غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے اپنی پیدائش کے پہلے دن سے دوسروں کو ڈسنے کی خصلت کی بنا پر وہ اپنے وجود دینے والوں کو ہی ڈستا ہے اس خصوصیت کو اگر موجودہ اسرائیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو من و عن پوری اُترتی ہے کہ وہ جس علاقے میں وجود پاتا رہا اس ہی علاقے کے لوگوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے رکھا ہے کیونکہ ان پر حاوی ہے یہی وجہ ہے کہ جو ممالک اس سے رابطے رکھے ہوئے

ہیں اور اسرائیل سے مختلف قسم کے تعلقات رکھتے ہیں یا اس کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوتے ہیں کہ وہ اس کا ضرور شکار ہوں گے۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک وہ کس طرح کے امریکا کے نائب صدر اور وزیرخارجہ کو ذلیل کرتا رہا، کس طرح ان کی مرضی کے خلاف مقبوضہ علاقوں میں بستیاں بساتا رہا ان کے منہ پر کالک ملتا رہا۔ آج سعودی عرب، مصر اور اردن کے حکمران بھی بچھو کی ماں کا حشر اپنے سامنے رکھیں۔

آج جوبائیڈن تمام دنیا کے مسلمانوں کے نمائندوں کے سامنے اسرائیل کی حمایت کررہا ہے، کل سب اس بچھو کو طاقتور بنانے کا باعث بن رہے تھے۔ بچھو کی خاصیت تو یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی پیدائش دینے والی ماں کا پیٹ کاٹ سکتا ہے تو وہ یقینا ان تمام ملکوں کو جنہوں نے سب سے پہلے اس بچھو کو فلسطین میں لا کر پروان چڑھایا وہ بھی اس بچھو کے ڈنک سے نہیں بچ سکیں گے اور وہ عرب مسلمان ملکوں کے حکمران بھی اس سزا سے نہیں بچ سکیں گے جو کہ ڈاکٹر اسرار کے مطابق ان کے لیے چمار کے جوتے کے مترادف ہوگی۔ جو ان کے لیے سزا ہی نہیں ہوگی بلکہ ان کی بے عزتی کا باعث بھی ہوگی اس کو اللہ کی طرف سے دیا ہوا عذاب کہہ لیں یا غزہ کے مظلوم معصوم بچوں کی سسکیاں یا بوڑھے لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی آہیں جو کہ اسرائیل کے اور اس کے وجود دینے والوں کے لیے بددعائیں بن کر عرش کو ہلا رہی ہوں گی۔ جس کی وجہ سے سب اپنے اپنے وقت پر سزا ضرور پائیں گے۔