بھارت سے تجارت کی بے تابی

501

پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں صحیح مقام کے لیے صحیح فرد کا انتخاب نہیں کیا جاتا یا پھر کوئی فرد اپنے دائرہ اختیار میں رہنے کے بجائے دوسرے شعبوں میں تاک جھانک کرتا ہے۔ اسحاق ڈار اس بار وزیر خزانہ کے بجائے وزیر خارجہ بنائے گئے تو بہت سوں کو حیرت ہوئی۔ مدتوں سے سنتے یہی آئے تھے کہ اسحاق ڈار کی مہارت کا میدان معیشت ہے وہ معاشی جادوگر جن کے ایک چھومنتر سے معیشت کی الجھی ہوئی گتھیاں لمحوں میں سلجھ جاتی ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں جب ان کی وطن واپسی کے لیے ماحول اور ذہن سازی ہو رہی تھی تو کئی ٹی وی اینکر تو بیان سازی کی مشین بن کر یہ کہہ رہے تھے کہ اسحاق ڈار کی آمد سے ڈالر کانپنے لگا ہے مگر پھر اسحاق ڈار وطن واپس آئے مفتاح اسماعیل کو کہنی مار کر پرے دھکیل دیا اور وزارت خزانہ کا قلم دان سنبھال لیا مگر مہنگائی کا وہ طوفان آیا کہ قوم کا خون خشک ہوگیا مگر ان کے قلم دان کی روشنائی بڑھتی چلی گئی۔ شاید اسی تجربے سے سبق حاصل کرکے ان کو اپنی مہارتوں کے میدان سے چھٹکارہ دلا کر مہارتوں کے نئے میدان میں تربیت اور مہارت کے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اب وہ وزیر خارجہ بن کر اس نئے محاذ پر اپنے جادوئی کمالات دکھانے کی کوشش کر نے لگے ہیں۔
لندن میں انہو ں نے اپنے پہلے پہلے اعلانات میں سے اعلان یوں کیا کہ تاجر برادری کا بھارت سے تجارت کے لیے دبائو ہے اور حکومت بھارت سے تجارت کھولنے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔ یوں وزیر خارجہ نے کہے سنے بغیر اپنا وزن بھارت سے تجارت کی بحالی کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اگر وہ وزیر خزانہ یا وزیر تجارت ہوتے تو اسے بات کی زیادہ اہمیت نہ ہوتی بطور وزیر خارجہ انہوں نے خارجہ امور کی تمام تر باریکیوں اور حساسیت کو نظر انداز کرکے اپنا وزن بھارت سے تجارت کے حق میں ڈال دیا۔ بطور وزیر خارجہ انہیں بہت سے محاذوں پر اپنے ملک کا مقدمہ وقار اور تمکنت کے ساتھ لڑنا ہے مگر وہ پہلے ہی ہتھیار پھینک دیں گے تو بھارت کو میز پر بیٹھنے کی ضرور ت ہی کیا ہے۔ بھارت سے تجارت کسی دوسرے علاقائی ملک کے ساتھ تجارت کی طرح بس ایک کاروباری سرگرمی نہیں بلکہ اس میں انا کی آمیزش سے بڑھ کر غلبہ ہوچکا ہے۔
بھارت اس وقت چین کی ہمسری اور مسابقت کرتے ہوئے علاقے کے دوسرے تمام ممالک کو اپنے پروں تلے چھپانا چاہتا ہے۔ اپنے سائے میں رکھنا چاہتا ہے اور یہ مطلق بالادستی کی حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی اور ذہن کی چھائوں تلے صرف خودرو جھاڑیوں کی طرح رہنا ہی علاقائی ملکوں کے لیے واحد آپشن ہے۔ بھارت کی مضبوط ہوتی ہوئی معیشت، نریندر مودی کی صورت میں ایک ہندو قوم پرست لیڈر کی اقتدار اور طاقت پر مضبوط گرفت اور ان کے اقتدار کے تسلسل کے امکانات کے ساتھ ساتھ جس بات نے بھارت کی انا کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے وہ ہے اس کے روایتی علاقائی حریف پاکستان کا معیشت کے میدان میں اوندھے منہ گر جانا ہے۔ پاکستان کبھی بھارت کے لیے کوئی بڑا چیلنج تو نہیں بن سکا مگر وہ اس کی بالادستی کے تصور سے بدکتا رہا ہے۔ اب پاکستان معیشت کی بدحالی کے باعث گھٹنوں کے بل آگیا ہے تو اسی بات نے بھارت کی انا اور تکبر کو بڑھا دیا ہے اور وہ پاکستان کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان خود سپردگی کے انداز میں بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے پر آمادگی کا اظہار کرے۔ اس کے لیے پکے ہوئے پھل کے جھولی میں گرنے کی مثال دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے لیے چین کے ساتھ تعلق کو ایک بوجھ بنانا اور بھارت کے ذریعے اسے آکسیجن ٹینٹ فراہم کرنا دیرینہ خواہش ہے۔
پاکستان میں ایک مضبوط لابی بھارت سے تجارت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ ایک کاروباری اور منافع کے متلاشی کے طور پر ان کی اس خواہش کا جواز موجود ہے مگر اس کو پاکستان اور بھارت کے مجموعی ماحول اور تعلقات کی زاویے سے الگ کر دیکھا نہیں جا سکتا۔ خود بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جس نے مدتوں تک غیر ملکی مصنوعات کی درآمد بند کیے رکھی جب اس کی اپنی صنعت مقابلے کی پوزیشن میں آئی تو یہ پالیسی بدل دی گئی۔ پاکستان نے پہلے اپنی معیشت کا بیڑہ غرق کیا۔ توانائی کے بحران کو بڑھا کر بدعنوانی کا تدارک نہ کرکے اور پرائی جنگوں کا بوجھ اُٹھانے کے نتیجے میں امن وامان کے مسائل پیدا کرکے اپنی صنعتی پیداوار کا بیڑہ غرق کیا تو نوئے کی دہائی میں چین کی مصنوعات کے لیے منڈیاں کھول دیں۔ اب پاکستان کی مارکیٹ پر چینی اشیا کا غلبہ ہے۔ اول تو بھارت کو فوری طور پر پاکستان کے ساتھ تجارت میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی اس نے ایران اور افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک رسائی کا بندوبست کر لیا ہے اور اگر پاکستان سے تجارت کی تھوڑی بہت دلچسپی ہے بھی تو اس کا مقصد پاکستانی مارکیٹ میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ غلطی در غلطی ہے۔ پہلے اپنی صنعت کو برباد کرکے چینی مصنوعات کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا گیا اب اپنی مارکیٹ کو چین اور بھارت کی اقتصادی جنگ کا اکھاڑہ بنا کر پرانی غلطی کا اعادہ کیا جائے گا۔
بھارت کو پاکستان میں چین کے ساتھ مسابقت کے لیے خیمے میں سر دینے کی جلدی ہے خیمے کو سر پر وہ خود ہی اُٹھا لے گا۔ کیونکہ پاکستانی تاجروں کو خنجراب اور کاشغر کی پر خطر وادیوں اور راہوں سے زیادہ واہگہ کے اس پار امرتسر اور انبالہ کی وسعتوں اور ہموار راہوں میں زیادہ کشش اور دلچسپی ہے۔ نشاط گروپ کے میاں منشاء اس طبقے کے جذبات کو زبان دیتے آرہے ہیں۔ لگے ہاتھوں اس معاملے میں کشمیر کا ذکر بھی کیا جائے تو یہ فقط اتنا ہے کہ اس کا تعلق قومی وقار اور انا سے ہوتا ہے۔ بھارت کشمیر پر ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں بلکہ بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ہر دوچار ہفتے بعد پاکستان کو بوریا بستر سمیٹنے کے انداز میں آزادکشمیر کو خالی کرنے کی بات یاد دلاتے ہیں۔ اسحاق ڈار جب بھارت سے تجارت کھولنے پر آمادگی کا اظہا رکررہے تھے تو راجناتھ سنگھ تیقن اور اعتماد کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ آزادکشمیر ہمارا تھا ہمارے اور ہمارا رہے گا آزادکشمیر کے لوگ خود ہمارے ساتھ ملنے کا مطالبہ کریں گے۔ راجناتھ سنگھ کے اعتماد کا راز کشمیریوں کی بدلی ہوئی کوئی خواہش نہیں بلکہ پاکستان کی اقتصادی بدحالی ہے جو اس کی آزادانہ اور اپنے قدموں اور قد سے کھڑے ہونے والے فیصلوں پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ اسحاق ڈار کی بے تاب تمنا پر سراج الحق کا وہ ردعمل معنی خیز ہے جس میں کشمیر کی صورت حال کے تناظر میں بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کی خواہش کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی کمزور ہوتی ہوئی فیصلہ سازی کے باوجود اندرونی دبائو کہیں نہ کہیں موجود ہے اور کچھ لوگ ریاست کی اجتماعی خود سپردگی اور سرینڈر کو روکنے کے لیے اب بھی کوشاں ہیں۔