یہ بات ہم اور آپ ہی نہیں پوری قوم کہتی ہے کہ پاکستان کسی فردِ واحد یا چند خاندانوں کی جاگیر نہیں کہ وہ پہلے تو اس کی حکمرانی کے لیے آپس میں لڑائی کا ڈراما کریں۔ انتخابات کے موقع پر ایک دوسرے کے خلاف گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخیں، ایک دوسرے کو گھر میں گھس کر مارنے کا دعویٰ کریں لیکن جب انتخابات کے نتائج سامنے آئیں تو اسے ماننے سے انکار کردیں، خفیہ طاقتوں کے ساتھ ساز باز کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیں اور علاقے آپس میں بانٹ لیں، ایک پنجاب پر قبضہ کرے اور دوسرا سندھ کو اپنی تحویل میں لے لے کہ یہی دو علاقے پاکستان کی جان ہیں۔ رہے خیبر پختون خوا اور بلوچستان تو ان حکمران خاندانوں کو ان سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، بھلے وہاں کسی کی بھی حکومت ہو۔ البتہ مرکز میں دونوں خاندان مل کر حکومت کررہے ہیں۔ ایک خاندان نے مرکز میں وزارتیں نہیں لیں اس کے عوض صدارت حاصل کرلی ہے اور ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر متمکن ہوگیا ہے جبکہ مرکز میں برسراقتدار خاندان وزارتوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہے۔ اب کی دفعہ یہ حیران کن واقعہ پیش آیا ہے کہ اس خاندان کے سدا بہار وزیر خزانہ اسحق ڈار سے ان کی من پسند وزارت لے لی گئی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جو عمران حکومت کے دور میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر تھے لیکن گرفتاری سے بچنے کے لیے لندن فرار ہوگئے تھے وہ تین سال تک مفرور رہے اور شاید اشتہاری بھی قرار دے دیے گئے۔ انہوں نے تین سال تک سینیٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی سینیٹ سے کوئی رخصت لی لیکن اس ملک کا گونگا قانون ملاحظہ ہو کہ وہ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت میں لندن سے وزیر خزانہ بن کر اسلام آباد آئے تو انہوں نے پہلی فرصت میں سینیٹ سے تین سالہ غیر حاضری کی کروڑوں روپے تنخواہ بھی وصول کرلی اور ملک کے معاشی اعتبار سے کھڈے لائن بھی لگادیا۔ اسحق ڈار یہ ’’کارنامہ‘‘ موجودہ حکومت میں بھی انجام دے سکتے تھے کہ ان سے زیادہ آئی ایم ایف کا ایکسپرٹ کوئی اور اس ملک نہیں ہے لیکن اب کی دفعہ آئی ایم ایف سے ایک طویل اقتصادی پیکیج لینا مقصود ہے جو عوام کی چیخیں نکلوا دے گا، اس لیے وزیر خزانہ بھی باہر سے امپورٹ کیا گیا ہے جو ایک لاکھ ڈالر ماہانہ تنخواہ لے گا۔ پاکستانی روپے میں یہ تنخواہ تین کروڑ روپے ماہانہ بنتی ہے لیکن ادائیگی اسے ڈالروں میں کی جائے گی کیونکہ ہمارے ہاں ڈالر کی لہر لہر ہے۔ ہاں اسحق ڈار کو ایک اور اہم وزارت یعنی وزارت خارجہ دے دی گئی ہے جس میں وہ اپنے بیرونی دوروں پر فراخدلی سے ڈالر حرج کرسکیں گے اس طرح وزارت خزانہ ہاتھ سے نکل جانے سے ان کی اشک شوئی ہوتی رہے گی۔
تفنن برطرف، اب ہم وزیراعظم کے ایک بیان کا سنجیدہ جائزہ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ان کی کابینہ کے ارکان یعنی وزیر مشیر اور معاونین خصوصی وغیرہ تنخواہ اور مراعات نہیں لیں گے اور رضا کارانہ خدمات انجام دیں گے۔ ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بڑے نمایاں انداز میں شائع اور نشر کی ہے۔ بلاشبہ یہ خبر ہے بھی اتنی اہم کہ اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف بڑے انقلابی ذہن کے مالک ہیں۔ پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت میں بی اگرچہ وہی وزیراعظم تھے لیکن اس وقت ان کے اندر چھپا ہوا ’’انقلابی‘‘ بوجوہ باہر نہیں آسکا تھا، اب کی دفعہ کسی عوامی مینڈیٹ کے بغیر حکومت مل جانے پر یہ انقلابی اچھل کر باہر آگیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ جب تک وہ عوام کے مفاد میں انقلابی فیصلے نہیں کریں گے انہیں عوامی پزیرائی حاصل نہیں ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے کابینہ سمیت تنخواہ اور مراعات سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ تنخواہ تو ظاہر ہے کہ نقدی کی صورت میں انہیں بینک سے ملتی ہے کیا سرکاری نوٹیفکیشن کی صورت میں وزارت خزانہ کو یہ ہدایت جاری کردی گئی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ ارکان کی تنخواہیں ان کے اکائونٹ میں نہ بھیجی جائیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تنخواہ تو ان کے اکائونٹس میں جمع ہوتی رہیں اور وہ محض انہیں نکالنے کا تکلف نہ کریں اور جب اپنے منصب سے سبکدوش ہوں تو ساری رقم بیک وقت وصول کرلیں؟ بہرکیف اس معاملے کی وضاحت ہونی چاہیے۔ دوسرا وضاحت طلب معاملہ ’’مراعات‘‘ کا ہے۔ مراعات سے وزیراعظم اور ارکان کابینہ کی کیا مراد ہے؟ کیا وہ بجلی، گیس اور پٹرول کا بل اپنی جیب سے ادا کریں گے، کیا وہ اور ان کے اہل خانہ سرکاری گاڑیوں کا استعمال ترک کردیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت مرکز اور صوبوں کی سطح پر نوے ہزار سرکاری گاڑیاں سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں جن میں پٹرول پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ کیا وزیراعظم ایوان وزیراعظم کے کچن کا خرچہ خود برداشت کریں گے؟ کیا وزیراعظم اور ارکان کابینہ گھریلو ملازمین کی فوج سرکار کو واپس کردیں گے، کیا یہ سب لوگ شاہی پروٹوکول سے دستبردار ہوجائیں گے اور سیکورٹی کے نام پر سڑکیں بند کرنے کی مکروہ روایت ختم ہوجائے گی۔ کیا جن وزیروں، مشیروں کو مکان اسلام آباد میں ہیں وہ اپنے ذاتی مکانات میں رہائش اختیار کریں گے اور سرکاری رہائش سے دستبردار ہوجائیں گے؟ اگر ان تمام سوالوں کے جوابات اثبات میں ہیں تو ہم وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو مبا رکباد پیش کرتے ہیں انہوں نے عوامی مینڈیٹ نہ ہوتے ہوئے عوام کی نمائندگی کی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلا کر قانون سازی کے ذریعے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس سے یہ تمام مراعات سلب کرلیں اور انہیں عوام کی سطح پر زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائیں۔
بے شک اس حکومت کو عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے لیکن اگر وہ یہ کام کرے گی تو عوام کی آنکھ کا تارا بن جائے گی اور لوگ عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں کو بھول جائیں گے۔ لیکن اگر یہ سارے اعلانات نمائشی اور جعلی ہیں اور حکمران اشرافیہ عوام کی سطح پر آنے کو تیار نہیں ہے تو موجودہ حکومت کے جواز پر سوال تو اٹھے گا۔ انتخابات میں ہونے والی انجینئرنگ بار بار زیر بحث آئے گی اور شہباز شریف خواہ کتنے ’’انقلابی‘‘ بنیں سکون سے حکومت نہیں کرسکیں گے۔