پاکستانی سیاسی منظرنامہ بظاہر بہت مایوس کن نظر آرہا ہے، قومی اتحاد پارہ پارہ ہے اور سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا۔ الیکشن کمیشن نے فروری 2024 کے الیکشن میں ملک کے عدالتی نظام کی موجودگی، مقرب اور موقر اداروں اور انتظامیہ کی سرپرستی میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، ایم کیو ایم کو حقیقی نتائج کے علی الرغم بڑے پیمانے پر اپنے مرتب کردہ نتائج سے سرفراز کیا۔ جماعت اسلامی کو ایک بڑی تعداد میں ووٹ لینے کے باوجود بظاہر عبرت ناک شکست سے اس طرح دوچار کیا کہ انہیں اسمبلیوں اور سینیٹ سے باقاعدہ منصوبہ سے باہر کر دیا گیا۔ معاشرہ کے طبقات میں سے ملکی تعمیر اور ترقی کے لیے کچھ کر گزرنے کا عزم کیے لوگوں کو بددل کرنے، استعماری طاقتوں سے غیر اصولی مصالحت پر مْصِر اور آگے بڑھتے ہوئے پرعزم لوگوں کا راستہ روکنے اور انہیں دلبرداشتہ کرنے کی حکمت عملی کی فضا اور منظر ہر درد دل رکھنے والا اور ہر جاگنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ اپنے لیڈروں اور سیاستدانوں کی موافقت اور مخالفت میں ہمارے باہمی تعلقات ذاتی دوستیوں سے ذاتی دشمنیوں میں بدل جاتے ہیں، رشتہ داروں اور حلقہ احباب سے تعلقات علٰیحدگی کی طرف دھکیلتے بلکہ ایک سرد مہری اور لاتعلقی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں، جب کہ سیاستدان مخالفتوں کی آخری حدود پار کرکے بھی بوقت ضرورت نہ صرف اپنی رنجشیں فراموش کر جاتے ہیں بلکہ آپس میں شیر و شکر ہوجاتے ہیں۔ سیاسی مْخاصَمَت اور دوریوں کے سبب عوام سر دست بظاہر آج کسی متحد موثر اور نتیجہ خیز احتجاج کے قابل نہیں۔ روز مرہ کے مسائل میں الجھے عوام کو آئے روز نت نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے با آسانی دبایا جارہا ہے اور ان سے دو وقت کی روٹی اور با عزت زندگی بسر کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے اور ان کا کوئی والی وارث نہیں۔
آج بگڑتی ہوئی صورتحال میں ملکی سیاست میں توازن کی جتنی ضرورت ہے شاید اتنی پہلے کبھی نہیں رہی۔ ملک میں جب بھی سیاسی بحران آئے ہیں ان تنازعات میں جماعت اسلامی نے ہمیشہ اتحاد امت کے لیے جو کردار ادا کیا ہے ان خدمات کا سب ہی اعتراف کرتے ہیں۔ دانش مند اور معاشرے میں اپنا اثر رسوخ رکھنے والے نفوس کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی دنیا میں گرتی ہوئی ساکھ، معاشی بد حالی اور بحیثیت قوم ہماری ابتری کے تقریباً اس پون صدی کے سفر میں آخر اس سب کا ذمے دار کون؟، اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے سیاستدان اور بلا تخصیص فوجی حکمران نہ صرف اس بدترین صورتحال کے ذمے دار بلکہ پاکستان کے مسائل کی اصل جڑ اور بنیاد ہی یہی ہیں۔ برسوں سے سیاسی بازی گروں کو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں بھیجنے کے منظم منصوبہ کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور ہو بھی کیا ہو سکتا تھا جو آج سیاسی انتشار کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ہر چند سال بعد پاکستان ایک نئے سیاسی بحران سے دوچار کر دیا جاتاہے، آخر یہ معاملات کب تک اس طرح چلتے رہیں گے اور اس کا حل کیا ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تک اقتدار میں آنے والے سیاستدان ہوں یا فوجی حکمران، سب نے یہی ثابت کیا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے تقریر اور زبانی دعوں کے علاوہ عملی طور سے ان کے پاس کوئی ایسی پالیسی نہ تھی اور نہ ہے کہ اب مزید ان سے توقعات باندھی جائیں۔ ان حالات میں اصلاح احوال کے لیے کوئی بھی’’آپشن‘‘ بچا نہیں ہے سوائے اس کے کہ اب تمام تر توقعات ’’جماعت اسلامی‘‘ سے وابستہ کی جائیں اور وہ بھی اسی وجہ سے کہ جب بھی جماعت اسلامی کو اور جس سطح پر موقع ملا ہے اس نے ہمیشہ ’’ڈیلیور‘‘ کیا ہے۔ بحیثیت وزیر خزانہ کے پی کے سراج الحق نے صوبہ کو قرض فری کیا، بحیثیت سینئر منسٹر انہوں نے صوبے میں جو انقلابی منصوبے شروع کیے تھے ان پر سے تمام جانبدار تجزیہ نگار اور اینکر خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ بحیثیت سٹی ناظم کرچی نعمت اللہ خان نے ’’4 سال‘‘ کی مختصر مدت میں بلدیہ کا بجٹ 6 ارب سے 42 ارب تک پہنچا دیا تھا، آج بھی کراچی میں جماعت اسلامی کے تحت ٹاونز میں مثالی کام جاری ہے۔ الخدمت ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جس کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
جماعت اسلامی ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک ہے، مالی بدعنوانی اور اخلاقی آلودگی سے پاک قیادت اور خدمت خلق بلا تفریق اس معاشرے میں اس کی پہچان ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت اسلامی اپنے اصلاح معاشرہ اور دعوت کے کام کو گلی محلوں میں مذید وسعت دے اور جہاں جہاں یہ دعوت اور پیغام نہیں پہنچا ہے اس کے لیے ایک نئی منصوبہ بندی کرے اور اپنے اصلاح معاشرہ کے انقلابی پروگرام کا بڑے پیمانے پر عوام میں پرچار کرے۔ لوگوں کو وسیع پیمانے پر یہ ادراک کرانے کی ضرورت ہے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل درامد ہی سے فرد اور حکومت کی خوشحالی جڑی ہے اور اسی میں محرومی اور افلاس کا علاج پوشیدہ ہے۔ نوجوانوں کی بے راہ روی جو میڈیا اور انٹرنیٹ کے بسہولت حصول کی وجہ سے وسیع معانی اظہار پیرایہ بن چکا ہے، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن ہمارا میڈیا اور سیاسی طور طریق ان مسائل کو مسائل سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں۔ ان تمام مسائل کو اْجاگر کرنے اور ان کا حل عوام الناس کو بتانے اور بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی ضرورت ہے۔ سیاسی منظرنامہ مایوسی سے اْمید افزا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہی دی جائے کہ وہ پروپیگنڈے اور مایوسی کی دلدل سے نکلیں اور اپنی سوچ کو بدلیں، جب سوچ بدلی جائے گی تو بہت کچھ از خود ہی تبدیل ہو جائے گا۔
جماعت اسلامی بحیثیت ایک دینی جماعت معاشرے میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے لیکن اپنے پیغام اور دعوت کے لحاظ سے کئی جگہ پر ادھوری اس لحاظ سے ہے کہ جماعت اسلامی جو ہے لوگ اسے سمجھتے نہیں ہیں یا انہیں ویسی نظر نہیں آتی- دعوت کی کمی یا کاوشوں کی کمزوری کے سبب کئی جگہوں پر ابھی بھی اجنبی ہے۔ وقت کی پکار ہے کہ موجودہ گمبھیر سیاسی صورتحال کی وجہ سے اس کے پیغام اور دعوت کی لو کو مدھم نہ پڑنے دیا جائے۔ جماعت اسلامی اس ملک میں کیا چاہتی ہے؟ اس کا مکمل منصوبہ بانی تحریک اسلامی سید مودودی ایک وسیع لٹریچر کی شکل میں چھوڑ گئے ہیں لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن 2024 کے بعد کا قلیل المعیاد منصوبہ بھی خاص و عام کے علم میں لایا جائے اور بجائے اس نہج پر تفکر کرنے کے کہ اکثریت جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتی لوگوں کی سوچ کو بدلنے کی حکمت عملی تیار کی جائے کہ لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کے اعتبار سے اپنی پہلی ترجیحات میں کیوں رکھیں؟، سوشل میڈیا کے استعمال کو مذید موثر بنایا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ سوشل میڈیا کا مہذب اور مثبت استعمال اپنے اندر بہت جاذبیت اور قبولیت رکھتا ہے۔ بنو قابل پروگرام جماعت اسلامی کی مسلسل اور منظم منصوبہ بندی کی کاوشوں کا مظہر، روشن مثال اور بڑے حوصلہ افزا نتائج کا حامل ہے۔ ایسے حالات میں وہ قوتیں جو جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے اثرات، غریب مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کی ترجمانی، وسیع پیمانے پر مسجد اقصیٰ کی آزادی کی آواز ، کشمیر اور اہل غزہ کی پشتیبانی سے خوفزدہ ہیں وہ اپنے فرماں بردار بچوں (good boys) کے ذریعے ان کاوشوں کو سبوتاژ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کے لیے نہ صرف منصوبہ بندی میں مصروف ہیں بلکہ عمل پیرا بھی ہیں، لیکن ربّ کا فرمان ہے ’’انہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں مگر ان کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا، اگرچہ ان کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ ان سے ٹل جائیں‘‘۔ (سورہ ابراہیم آیت 46)
اقوام عالم میں خود داری کے ساتھ عزت اور عروج کا مقام اور مرتبہ حاصل کرنے کے لیے بحیثیت قوم ہمیں کوئی تو مشعل راہ چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم اقوام عالم کے لیے مثال بنیں آج سارے عالَم میں کاسۂ گدائی ہماری پہچان بنا ہوا ہے۔ رسول اللہؐ کے ساتھ جو پاکیزہ نفوس تھے ان کی ایسی تربیت تھی کہ ہر وقت نگاہ کے سامنے مقصد زندگی سوائے اطاعت رسول اور اطاعت اللہ کے علاوہ اور کیا تھا؟، اس پیمانے پر دیکھیے تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ پاکستان بنانے کا مقصد اسی کے سوا اور کیا تھا؟ کیا اس حوالے سے معاشرے میں اسی منزل مقصود کی جانب سفر طے کرنے کے لیے سوائے جماعت اسلامی کے آپ کو اور کوئی جماعت نظر آتی ہے؟ یہ سوال بھی ہے اور جواب بھی۔