خوف کس بات کا

440

امریکا ایک بڑا ملک ہے ضروری نہیں کہ رقبے کے لحاظ سے بڑا ملک انصاف پسند بھی ہوگا‘ امریکا کے بارے میں تو روتے اور بلکتے ہوئے غزہ سے پوچھ لیا جائے کہ یہ کیسا ملک ہے۔ بہر حال رواں سال امریکا میں انتخابات ہونے جارہے ہیں، امریکا میں سرخ اور نیلے باہم متصادم رہتے ہیں مگر جہاں ان کے قومی مفادات کا مسئلہ ہو وہاں یہ ایک ہوجاتے ہیں۔ نیلے ڈیموکریٹس ہیں اور سرخ ریپبلکن ہیں، ان دنوں وہاں ٹک ٹاک ایپ پر پابندی کی بحث جاری ہے پابندی کا بل امریکی ایوانِ نمائندگان سے باآسانی منظور ہونا سب کے لیے حیران کُن تھا۔ حمایت میں 352 اور 65 مخالف ووٹ آئے تھے بل میں ٹک ٹاک کے مالکان بائی ٹیڈنس کو ستمبر تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹاک ٹاک فروخت کرنے کا کہا گیا ہے ورنہ اسے امریکا میں پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا امریکی سمجھتے ہیں کہ چین، امریکا میں ٹک ٹاک کے تقریباً 17 کروڑ صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرسکتا ہے اور الگورتھم کو اپنے حق میں ’تبدیل‘ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے امریکی قانون سازوں نے دعویٰ کیا کہ یہ قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے جو کسی صورت قابلِ برداشت نہیں، ایک ہم ہیں کہ ہمارے ہاں سب آزاد ہیں، گلے کاٹنے والی ڈور کے مافیا سے لے کر سڑکوں پر غلط سمت میں گاڑی چلانے تک سب آزاد ہیں، کسی کو قانون کا ڈر خوف نہیں ہے۔

ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر جو منہ میں سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے امریکا کے ایوان کے بہت سے نمائندگان کی ٹک ٹاک پر فالوونگ بھی بہت زیادہ ہے؟ اگر اس معاملے پر غور کریں تو یہ اتنا امریکا کی قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں جتنا یہ اسرائیل کی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اگرچہ اسرائیل کو موقع مل گیا کہ وہ غزہ کی آبادی کا قتل عام کرکے اپنے نسل کشی کے مقصد کو پورا کرے لیکن مغربی ممالک کی آبادی کی سوچ میں تبدیلی دیکھی گئی۔ مغربی ممالک میں بڑی تعداد میں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور پُرعزم انداز میں احتجاج کیا کیونکہ وہ مغرب کی حمایت یافتہ صہیونی حکومت کی نسل پرستی میں لپٹی سفاکیت کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ ابتدائی طور پر تو مغربی اتحادیوں اور ان کے حمایت یافتہ میڈیا نے ان مظاہروں کو مسترد کیا، پھر انہیں ڈرایا دھمکایا اور بعدازاں ان مظاہروں کی شدت میں اضافے کے باعث وہ خود پریشان نظر آئے۔

مغرب میں صہیونیت کے سیاسی اتحادیوں اور میڈیا اسٹیبلشمنٹ نے خود سے یہ سوال پوچھا۔ کیا اس کی وجہ ہوسکتی ہے کہ نوجوانوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے فلسطینیوں کو بھوک، بمباری اور بے دردی سے قتل ہوتے دیکھا جارہا ہے کیا اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں کے گھروں کی لوٹ مار، انہیں تباہ کرنا، یا بے گھر اور قتل کی جانے والی فلسطینی خواتین کے زیرِجامہ کے ساتھ تصاویر مغرب کے نوجوانوں کو ناگوار گزریں؟ کیا یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ یہ لوگ اب درحقیقت اس طویل قبضے کے حقائق جاننا چاہتے ہیں؟ اسرائیل جو کررہا ہے اقوام عالم میں یہ ہر اس ملک کے لیے جائز ہے جس کی نظر میں انسانیت کی کوئی قدر اور اہمیت نہیں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ غزہ کے مقابلے میں اسرائیل کے لیے امریکا کہاں اور کس قوت کے ساتھ کھڑا ہے، اس کی حمایت غزہ کے لیے کیوں نہیں؟

صہیونیت کے حمایتی اینٹی ڈیفی میشن لیگ کے ڈائریکٹر جوناتھن گرین بلیٹ نے اپنی لیک آڈیو کال میں ایک طرح سے اس بات کا اعتراف کیا جہاں انہوں نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کے حامی گروپوں کے لیے ’ٹک ٹاک ایک سنگین مسئلہ ہے‘۔ پھر جب اس بل کا مسودہ تیار کیا گیا تو اسے اسرائیل کے حمایت یافتہ طاقتور لابی گروپوں، شمالی امریکا کی یہودی فیڈریشنز کی حمایت حاصل ہوئی۔ کانگریس کے رکن مائیک گیلگرنے یہ مسودہ لکھا امریکی یہودیوں کا گروپ جن میں ماہرین ِ تعلیم، اداکار، لکھاری اور پروفیسرز شامل ہیں، نے اے آئی پی اے سی کی مذمت کرتے ہوئے خط پر دستخط کیے۔ امریکی سیاست پر اسرائیلی لابی کی گرفت فی الوقت مضبوط ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان نے حال ہی میں انروا (UNRWA) کی امداد پر پابندی لگانے اور اسرائیل کو اضافی 14 ارب ڈالرز فراہم کرنے کا بل 286 ووٹوں سے منظور کیا، البتہ 134 افراد نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اے آئی پی اے سی نے اپنی طرف سے ڈیموکریٹک پرائمریز میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی کی حوصلہ افزائی کی جس سے حیرانی ہوتی ہے کہ امریکا ہی شاید وہ واحد ملک ہے کہ جہاں کوئی غیرملکی طاقت سیاستدانوں کو خریدنے پر اصطبل سجانے پر عام فخر کرسکتی ہے۔