ہو سکتا ہے کہ یہ اتفاق نہ ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایران نے 17جنوری 2024ء اور اس کے پورے دو ماہ بعد ایک اور اسلامی ملک افغانستان نے 16مارچ 2024ء کو پاکستان کی ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا جس کا جواب دینے کے لیے پاکستان کو فوج کی زبان استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ افغانستان کا پاکستان پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا لیکن جواب بہت سخت دیا جارہا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ افغانستان کو ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ اس نے اپنی پوری تجارت کو بند کرکے پاکستان سے جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس جنگ کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان میں تجارتی راستے ملنے سے مایوسی کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کے بعد ایرانی بندرگاہ چابہار نے اس کام کو آسان کر دیا جس کی وجہ سے افغانستان کو اب پاکستان کی تجارتی ضرورت نہیں ہے۔
خلیج عمان کے جنوب مشرقی ایران ساحلی شہر چابہار کی ’’بہشتی بندرگاہ‘‘ پر 25 فروری 2019 کو نئے آلات اور بنیادی ڈھانچے کی افتتاحی تقریب کے دوران افغان وفد بھی موجود تھا۔ افغان وفد کے دورے کا مقصد چابہار اسپیشل اکنامک زون کے اندر تعمیراتی منصوبے پر توجہ مرکوز کرنا تھا جس میں 25 منزلہ بلند و بالا رہائشی کمپلیکس کی تعمیر بھی شامل ہے۔ دو ماہ قبل آسٹریلیا کے اخبار گریک سٹی ٹائمز نے اس سرمایہ کاری کا انکشاف یہ کہہ کر کیا تھا کہ یہ سرمایہ کاری ایک افغان وفد کے ایران کے دورے کے بعد منظر عام پر آئی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان گہرے اقتصادی تعاون کو اجاگر کیا گیا تھا۔ اس اقدام کو افغانستان کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر تصور کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی پانیوں تک افغانستان کی رسائی کو بہتر بنانا اور اس کی تجارتی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔ اخبار سٹی ٹائمز کے مطابق تہران میں افغانستان کا سفارت خانہ طالبان کے نمائندوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں یہ سرمایہ کاری ایک افغان وفد کے ایران کے دورے کے بعد منظر عام پر آئی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان گہرے اقتصادی تعاون کو اجاگر کیا گیا تھا۔
افغانستان اور ایران کے درمیان یہ سرمایہ کاری ایسے وقت میں کی گئی جب دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف سرحدی تنازعات اور پانی کے حقوق جیسے معاملات پر کشیدگی تھی بلکہ ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال میں ایک افغان تجارتی وفد نے ایران کی جنوبی بندرگاہ چابہار میں 35 ملین ڈالر کے تعمیراتی اور سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان کر کے پاکستان کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان کو تجارت کے لیے اب پاکستان کی ضرورت نہیں ہے۔
ایران انٹرنیشنل کے مطابق افغانستان میں ایران کے سفیر حسن کاظمی قمی نے کہا کہ ’35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تجارتی، رہائشی اور انتظامی سمیت مختلف منصوبوں پر کام شروع ہو گیا ہے۔ یہ اقدام افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے ایران کے حالیہ اقدامات کے پس منظر میں سامنے آیا جس میں بڑے پیمانے پر ایران سے افغان شہریوں کی بے دخلی کی اطلاع تھی۔ یہی کچھ پاکستان نے بھی تو افغانستان پاکستان سے تلخ ہو گیا۔
عربی اخبارات سے ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی تھیں کہ تازہ ترین اقدام سے ایران میں موجود بہت سے غیر قانونی افغان کارکنان کو ایک نظام کے تحت وہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ ایران سے افغانستان کی حال ہی میں سرحدی کشیدگی کے دوران دسمبر میں افغانوں کے 16 ایرانی صوبوں میں رہنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ خاص طور پر تعمیراتی شعبے میں افغان کارکنوں کی آمد کو ایران کے اندر تنقید ہو رہی تھی۔
یہ بات افغان حکومت کو معلوم ہے کہ افغان شہریوں پر ایران میں اقتصادی بحران کے دوران ایرانیوں سے ملازمتیں چھیننے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ایران میں غیر ملکی شہریوں کی تعداد تقریباً 40 لاکھ ہے، جن کا ایک بڑا حصہ نقل مکانی کرنے والوں کا ہے۔ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایران نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات بھی کچھ عرصے سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی راستے آئے دن مختلف وجوہات کی بنا پر بند رہتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں جانب کی تجارتی برادری کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے گزشتہ برس ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ اس نے اس کے ثبوت افغان طالبان کو فراہم کیے تھے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا جو کہ پاکستان کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔ پاکستان کی کوششوں کے باوجود ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں کارروائی نہیں کی گئی اور پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے واقعات سامنے آتے رہے جس کے بعد پاکستان نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کو واپس بھیجنا شروع کر دیا۔
افغانستان اور ایران دونوںہی ممالک سے امریکا کے تعلقات نہ ہونے برابر ہیں جس کی وجہ عالمی تجارت میں دونوں ممالک دشواریوں کا سامنا ہے۔ ایران افغانستان تناؤ کے باوجود، چابہار میں سرمایہ کاری کو افغانستان نے اپنی تجارت کے لیے متبادل راستے کو محفوظ بنانے اور اپنی معیشت کو تقویت دینے کے لیے ایک اسٹرٹیجک کوشش کر رہا ہے جس پر پاکستان کو بھی کوئی اعترض نہیں ہے۔ ایران کی چابہار بندرگاہ افغانستان کے لیے بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کے لیے ایک اہم گیٹ وے ہے۔ یہ باتیں عارضی طور تو درست ہو سکتی ہیںکہ افغانستان کو پاکستان سمیت قریبی پڑوسیوں پر مکمل انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن افغانستان کو اس بات کا علم ہوناچاہیے کہ ایران اور بھارت کے درمیان 2019 سے 2022ء تک چابہار بندرگاہ بھاری سرمایہ کا ہنی مون چلتا رہا ہے جس کا مقصد پاکستان کی بندر گاہ گوادر کی اہمت کو کم کر نا تھا لیکن آخر کار پاکستان نے ایران کو خوبِ خرگوش سے ایران کو جگایا اور ایران سے سی پیک معاہدے میں مدد فراہم کی ہے۔ اس لیے ایران کی قربتوں میں پاکستان سے جنگ افغانستان کے لیے تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔