بے لگام خواہشوں اور عادتوں کی غلامی ہی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اگر انسان اپنے نفس کو قابو میں نہ رکھے اور نفس اس پر غالب آجائے تو اچھے سے اچھے اصول بہتر سے بہتر قانون اور ضابطے بے نتیجہ ہو کر رہ جاتے ہیں، کوئی بھی نظامِ اخلاق نفس انسان پر پابندیاں لگائے بغیر قائم رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکتا ہے، جس طرح ایک فرد نفس کے دھوکہ میں آکر بھٹکتا ہے اسی طرح پوری قوم کی قوم نفس کے دھوکے میں آکر بھٹکتی اور ساری دنیا کو فتنہ و فساد سے بھر دیتی ہے۔ جھوٹ، خیانت، ظلم و ستم دغا و فریب ساری خرابیاں اسی نفس پرستی کی تو ہیں۔
اسلام نے نفس انسانی کو قابو میں رکھنے کے لیے روزے کا ایک تربیتی نصاب تجویز کیا ہوا ہے، جس کے تحت ہر سال تیس دن تک اسلامی معاشرے کے افراد ضبط نفس کی مشق کرتے اور اخلاقی قوتوں کو منظم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ سورۂ بقرہ کی جن آیات میں روزے کے فرض ہونے کا اعلان کیا گیا ہے انہی میں روزے کے اس مقصد کو بیان کر دیا گیاہے:- ارشاد ہوا: ’’اے ایمان لانے والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔
آگے چل کر اس حکم کے مقصد کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے:- ’’اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ تقویٰ اسلام کے نظام اخلاق کو کہتے ہیں، اس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے حلال و حرام کی جو حدود مقرر کردی ہیں ان کی پابندی کی جائے اسلام کا نظام اخلاق حلال و حرام کی انہی پابندیوں پر قائم ہوتا ہے۔ یہ پابندیاں صرف کھانے پینے کی حد تک ہی نہیں ہیں۔ بلکہ اسلامی شریعت میں حرام و حلال کی اصطلاحیں زندگی کے پورے مسائل و معاملات کے لیے ہیں، فکر و نظر علم و اخلاق دستور و قانون، تہذیب و معاشرت، سیاست و معیشت، تجارت و کاروبار، تعلقات روابط، صلح و جنگ زندگی کے ہر معاملہ میں خوب و ناخوب حلال و حرام کا یہ فرق قائم ہوگا۔
ایک اسلامی معاشرے میں افراد کی اخلاقی تربیت کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ وہ اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں حلال و حرام کی حدود میں رہتے ہوئے تقویٰ کی اس صفت کو پیدا کریں اور ظاہر ہے یہ حقیقت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی، جب تک کہ لوگوں کو اپنے نفس پر قابو پانے کی اچھی طرح مشق نہ ہوجائے۔ اس مشق کے لیے روزے سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ روزہ کی سب سے بڑی تکلیف بھوک پیاس کی تکلیف ہے، مگر اصل میں یہ بھوک پیاس بھی بڑی تکلیف نہیں ہے، اصل تکلیف نفس کی یہ بے بسی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے نہیں ہوتا اور جو نہیں چاہتا اسے ماننا پڑتا ہے اور کرنا پڑتا ہے۔ سارا دن نفس سے ایک کشمکش رہتی ہے وہ کھانے کو مانگتا ہے اسے کھانا نہیں دیا جاتا، وہ پینے کے لیے لپکتا ہے۔ مگر اسے پیاسا رکھا جاتا ہے، بھوک پیاس سے نڈھال وہ آرام کرنا چاہتا ہے مگر اسے وقفہ وقفہ سے نماز کے لیے عبادتوں کے لیے اٹھایا جاتا ہے، جب وہ سونا چاہتا ہے اسے جگا دیا جاتا ہے، پھر یہ تکلیف ایک دو دن نہیں پورے ۳۰دن رہتی ہے اس طرح ایک مہینہ میں وہ سارے معمولات تبدیل ہوجاتے ہیں جن کا نفس عادی ہوچکا ہے، اور ان کے خلاف کرتے ہوئے اس کی جان پربنتی ہے، اس طرح روزہ نفس کی بھوک اور پیاس کی مار دے کی اسے قابو میں لے آتا ہے۔ اس بیزاری اور فاقہ کشی سے نفس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ سر جھکا کر اطاعت کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔
دراصل روزہ کے ذریعہ آدمی کو بھوکا پیاسا رکھنا مقصود نہیںہے بلکہ اسے نفس کو قابو میں رکھنے کی ریاضت و مشق کرانی ہوتی ہے کہ عادت اور خواہش انسان پر غالب نہ ہوجائے روزے کا یہ پروگرام دراصل عادتوں کو زیر کرنے اور خواہشوں کو قابو میں لانے کی ایک مکمل تربیت ہے تاکہ آدمی ان تمام چیزوں سے دور رہے جن کو اللہ کے دین نے حرام اور ناپسندیدہ ٹھیرایا ہے۔ حرام اور ناپسندیدہ چیزوں سے بچنے کی مشق اس طرح کرائی جاتی ہے کہ روزہ دار رمضان کے تیس دنوں میں صبح سے شام تک اپنے اوپر ان تمام چیزوں کو بھی جو اللہ کی طرف سے حلال ٹھیرادی گئیں ہیں حرام کر لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ اللہ نے انہیں ایسا کرنے کاحکم دیا ہے، جب حلال تک کو چھوڑنے کی نفس میں آمادگی پیدا ہوجاتی ہے تو پھر زندگی کے سارے معاملات میں حرام کا ترک کردینا کچھ دشوار نہیں ہوتا۔
روزہ ایک خاموش اور پوشیدہ عبادت ہے جو نماز، زکوٰۃ، حج کی طرح آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی، مگر انسانی جسم اور ذہن میں چپکے چپکے کا م کرتی رہتی ہے۔ روزہ جسم و ذہن کے تمام فاسد مادوں کو تحلیل کردیتا اور آلائشیوں اور کدورتوں سے پاک کردیتا ہے، نبی اکرمؐ نے روزے کو اسی لیے ڈھال کہا ہے کہ وہ نفس کے تقاضوں اور شیطان کی ترغیبوں کے مقابلے میں روک بن جاتا ہے۔ انسان کے روزے انسان کی قوت ارادی کو مضبوط کرتے اور اس کی اخلاقی قوت کو مضبوط اور متحرک کردیتے ہیں تاکہ وہ زندگی میں حق و صداقت کا فریضہ انجام دینے میں سستی اورکاہلی اور غفلت اور غیر ذمے داری کا شکار نہ ہو۔
روزہ اسلامی معاشرے میں اجتماعی اخلاق کو پیدا کرنے اور مسلمانوں کی معاشرتی تنظیم کو مضبوط بنانے کا ایک ذریعہ ہے، لاکھوں انسانوں کا اللہ کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ روزے کا ارادہ کرنا ایک ہی وقت میں کھانا پینا بند کردینا دن بھر ایک ساتھ بھوکا رہنا، پھر ایک ہی وقت میں ایک ہی لمحہ میں ایک ساتھ افطار کرنا، پھر ایک ساتھ تراویح میں کلام الٰہی کو سننا، یہ سارا اجتماعی عمل ایک نصب العین یقین و ایمان کو پختہ کرتا ہے۔ ایک ہی فرض کے انجام دینے میں یہ شرکت ان کو متحدرکھتی ہے۔ وقت کی پابندی کے ساتھ ایک ہی جیسے کا م انجام دینے سے نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح لوگوں میں متحد ہوکر برائیوں اور خرابیوں سے مقابلہ کرنے نیکیوں اور بھلائیوں کو رواج دینے کا سلیقہ پیدا ہوجاتا ہے۔
روزہ رفاۂ عام کی ایک تنظیم ہے کہ روزہ رکھنے والوں کو بھوک پیاس کی اس تکلیف سے دوسرے مجبور اور پریشان حال لوگوں کی اس تکالیف کا بخوبی احساس ہوجاتا ہے اور ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ رمضان کے مہینوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے‘ زکوٰۃ ادا کرنے کھانے پینے میں دوسروں کو شریک کرنے کا بڑا اجر اور ثواب ہے۔
رمضان کا پورا مہینہ ضبط ِ نفس اور اخلاقی تربیت کا ایک مہینہ ہے جو انسان میں تقویٰ کی صفت پیدا کرتا ہے اور معاشرہ میں نیکیوں کی فصل کو پروان چڑھاتا ہے۔