سندھ کو باب الاسلام کا اعزاز دلوانے والے عظیم جرنیل محمد بن قاسم جس کا اصل نام عماد الدین تھا سترہ سال کی عمر میں 712عیسوی کو اس نے سندھ کو فتح کرنے کا عظم کارنامہ انجام دیا تھا مگر بدقسمتی سے کچھ سیکولر دانشور محمد بن قاسم کو لٹیرا قرار دیتے اور یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے لشکر کشی کرکے سندھ کے اصل حکمران راجا داہر سے اقتدار چھینا تھا حالانکہ غیر جانبدارانہ تاریخ نویسوں نے اس کی وجہ سے مظلوم تاجروں کے بیوی بچوں کے اغواء سرندیپ کے راجا کی طرف سے خلیفہ اسلام کی خدمت میں بھیجے جانے والے تحائف کو لوٹنے اور مسلم عمرہ و حج زائرین کو یرغمال بنانے والے ڈاکوؤں کی سرپرستی کو اس کی اصل وجہ قرار دیا سیکولر دانشوروں کا خیال ہے کہ محض چند تاجروں کو بیوی بچوں کے لیے اتنا بڑا قدم نہیں اٹھایا جاسکتا کیونکہ کوئی حکمران صرف تاجروں کے لیے اتنا بڑا رسک نہیں لیتا ان دانشوروں کو عملی حقائق اور اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے کردار سے واقفیت نہیں کہ اس کے دور میں بغداد میں باہر سے مال تجارت لیکر آنے اور بیرون ملک مال تجارت لے کر جانے والے تاجروں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا حکومت مشینری ان تاجروں کے جان و مال کے تحفظ کا بھرپور خیال رکھتی تھی بلکہ بعض اوقات اگر تاجروں کا مال نہ بکتا تو خلیفہ وقت کا یہ حکم تھا اسے سرکاری خزانے کی رقم سے خرید کر عوام میں فری تقسیم کردیا جائے۔
ولید بن عبدالملک کا دور فتوحات کا سنہری دور اور تاجروں کی عزت و احترام کا بھی کلیدی دور کہلاتا ہے اس زمانے میں سراندیپ کا راجا مسلمان تھا اس کے ملک میں عرب تاجر جو مختلف اوقات میں دوران سفر وفات پاگئے تھے ان کے بچے اور عورتیں بے یارو مدد گار تھیں اور وہ واپس اپنے وطن ملک عرب واپس جانا چاہتے تھے کو اپنے اخراجات پر بحری جہازوں پر سوار کرایا اس کے ساتھ کچھ قیمتی تحائف بھی خلیفہ کی خدمت میں روانہ کیے اور عمرہ و حج کے زائرین کو بھی ان جہازوں میں سوار کرادیا جب یہ جہاز راجا داہر کے زیر انتظام ریاست سندھ کے ایک ساحلی علاقے دیبل سے گزر رہے تھے تو بحری ڈاکوؤں نے یرغمال بنالیا کسی طرح یہ خبر مسلم ریاست کے مشرقی علاقوں کے گورنر حجاج بن یوسف کو پہنچی تو اس نے مظلوموں کی رہائی بری قذاقوں کی سزا اور قیمتی تحائف کو خلیفہ کے دربار تک پہنچانے کی ذمے داری ادا کرنے کے لیے راجا داہر کو خط لکھا راجا داہر نے اس سلسلے میں تعاون کرنے کے بجائے حجاج بن یوسف کو توہین آمیر جواب دیتے ہوئے کہا اگر طاقت رکھتے ہو تو قیدیوں کو رہا کراؤ اور قذاقوں کو شکست دو۔ حجاج بن یوسف اس جواب کو پڑھ کر سیخ پا ہوگیا اس نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اجازت طلب کی کہ وہ بحری ڈاکوؤں کے چنگل سے مظلوم مسلمانوں کو رہا کرانے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہچانے کی رخصت دے اجازت ملنے پر حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے اور ملک فارس میں بحیثیت حاکم اعلیٰ کارنامے انجام دینے والے سترہ 17سالہ نوجوان محمد بن قاسم کا انتخاب کیا اور چھے ہزار سپاہیوں کا لشکر اسے دیکر برصغیر کی طرف روانہ کیا جس وقت محمد بن قاسم لشکر کی روانگی کے لیے تیاریوں میں مصروف تھا تو اس کا ایک پرانا دوست ملا اور کہنے لگا تم برصغیر کی کروڑوں پر مشتمل آبادی کو فتح کرنے چھے ہزار سپاہیوں کو لیکر جارہے ہو تو فتح کے لیے اپنی موت کی طرف جارہے ہو میرا مشورہ یہ ہے کہ تم پیدل جاؤ تاکہ زندگی کے مزید چند دن تمہیں میسر آجائیں تو محمد بن قاسم نے بڑے ولولے کے ساتھ قرآن کی آیت پڑھی جس کا معنیٰ یہ ہے کہ اپنے ربّ کی ملاقات کے لیے جلدی جارہا ہوں تاکہ وہ راضی ہوجائے۔
وہ بغداد سے روانہ ہو کر کرمان پہنچا جو آج بھی عراق اور ایران کی مشترکہ سرحد ہے اس دور میں یہ مسلم ریاست کا ایک صوبہ تھا یہاں کا حاکم محمد بن ہارون بھی تین ہزار کا لشکر لیکر محمد بن قاسم کا ہمسفر بن گیا یہ لشکر اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے جون 712عیسوی کو راجا داہر کی راج د ھانی ارمن بیلا پہنچ گیا دونوں لشکروں میں مڈبھیڑ ہوئی تین دن کی خونیں جنگ کے بعد راجا داہر شکست کھا کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگیا اس کے بعد محمدبن قاسم دیبل کی طرف بڑھا جو قدیم زمانے سے ریاست سندھ کی بندرگاہ تھی اور اس وقت ڈاکوؤں کی آماجگاہ اور مغوی مسلمانوں کی جیل تھی اسی دوران بحری جہاز کے ذریعے بھاری اسلحہ بھی دیبل کی بندرگاہ پر پہنچ گیا محمد بن قاسم نے دیبل میں ڈاکوؤں کے مضبوط ٹھکانوں پر بھرپور حملہ کیا اور منجنیق سے گولہ باری کی جو کہ برصغیر کی جنگی تاریخ کا پہلا بھاری ہتھیار تھا جس کی جدید شکل آج کل ٹینک ہے اس مقام پر راجا داہر کا بیٹا سید عرف کیشب بھاری جانی مالی نقصان اٹھا کر بھاگ گیا جس کے نتیجے میں دیبل اور اس کے ملحقہ علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا اور 10رمضان المبارک کو اس خطے میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی اس علاقے کی 90فی صد آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی جس میں برہمنوں سے لے کر نچلے درجے کے ہندو شامل تھے محمد بن قاسم نے مغوی عورتوں بچوں زائرین حج و عمرہ کو آزارکروا کر بڑے احترام کے ساتھ بغداد روانہ کیا اور اس واقعے میں ملوث ڈاکوؤں کو سخت سزائیں دیں۔
اس وقت عام تاثر یہ تھا کہ محمد بن قاسم فتح کے بعد قتل و غارت کا بازار گرم کرے گا اور لوگوں کے مال واسباب چھین کر ملک عرب روانہ کرے گا مگر محمد بن قاسم نے ان کی سوچ کے برعکس عام معافی کا اعلان کردیا اور مقام ہندو پنڈت کو دیبل کا حکمران مقرر کرکے باقی عہدے بھی مقامی لوگوں میں تقسیم کردیے جس سے مقامی لوگوں کے دلوں میں محمد بن قاسم کے لیے ہمدردی اور احترام کے جذبات پیداہوگئے اور اپنے معتمد ساتھی حمید بن ذارائع کو انسپکٹر جنرل پولیس مقررر کرکے بلااختلاف مذہب و مشرب تمام لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری دی اس کے بعد محمد بن قاسم دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ علاقوں کو فتح کرتے ہوئے چند روز کے بعد اس مقام پرپہنچا جہاں آج کل روہڑی کا قصبہ آباد ہے اور سندھ کا سب سے بڑا ریلوے جنکشن ہے اس زمانے میں اس جگہ کا نام اروڈ تھا اور یہاں راجا داہر کا بہت مضبوط قلعہ بھی تھا جہاں راجا داہر نے محمد بن قاسم سے بدلہ لینے کے لیے تیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل بھاری لشکر تیار کررکھا تھا اس وقت محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی تعداد بمشکل پندرہ ہزار تھی دونوں فوجوں میں تین دن تک گھمسان کارن پڑا آخر کار راجا داہر اسی میدان میں قتل ہوا اور اس کی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔
محمد بن قاسم نے کمال فراست اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دربار منعقد کیا اور عام لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کردیا اور کہا اسلامی حکومت میں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی اپنے سابقہ مذہب پر قائم رہنے والوں سے شریعت محمدی کی تعلیمات کے مطابق معمولی جزیہ لیا جائے گا اس کے بدلے میں ان کی جان مال عزت آبرو کی حفاظت کی جائے گی جو اسلام قبول کرے گا اس کے اور ہمارے حقوق مساوی ہوں گے۔ یہاں سے فراغت کے بعد محمدبن قاسم آگے بڑھا اور برہمن آباد، الور اور ملتان کو فتح کیا اس زمانے کی یہ ریاست سندھ موجودہ پاکستان کے رقبے سے بھی بڑی تھی اس کی سرحد مغرب میں مکران بلوچستان تک جنوب میں کاٹھیاواڑ گجرات تک مشرق میں راجپوتانہ تک اور شمال میں ملتان سے آگے جنوبی پنجاب تک تھی محمد بن قاسم کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور محمد بن قاسم کے چار سالہ دور حکومت میں کسی ایک فردکا مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا جبکہ راجا داہر کا بیٹا بھی اسلامی ریاست کے عدل و انصاف کو دیکھ کر اپنی مرضی سے مسلمان ہوگیا۔ سندھ کے عوام نے بالعموم اور کیرج کے ہندؤں نے بالخصوص محمد بن قاسم کی واپس کے بعد یادگار کے طور پر اس کے مجسمے بنا کر ملک کے طول و عرض میں عام شاہراہوں، مرکزی آبادیوں اور اہم مقامات پرنصب کیے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں بھی محمد بن قاسم کے تاریخی سنہری دور و کردار کو یاد رکھ سکیں۔ محمد بن قاسم کے دور حکمرانی کو آج ایک ہزار تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر وہ اب بھی اہل سندھ کے دلوں میں زندہ ہے۔
میرا مرقد میرے احباب کے سینے ہوں گے
تودۂ خاک کو مت جانیو تربت میری