’’چائے کی پیالی کا طوفان ‘‘

507

حالیہ چند برس میں خطے میں چائے کی دو پیالیوں کو شہرت بھی ملی اور ان کے اثرات بھی خطے کی سیاست پر مرتب ہوئے۔ چائے کی ایک پیالی وہ تھی جسے تھام کر بھارتی پائلٹ ابھی نندن نے ایک چسکی بھرنے کے بعد کہا تھا کہ ’’دی ٹی واز فنٹاسٹک‘‘۔ چائے کی اس پیالی اور ابھی نندن کی اس خاطر مدارت نے پاکستان کی طرف تنے ہوئے بھارتی میزائلوں کا رخ موڑ دیا تھا اور جواب میں پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کا ارادہ ترک کردیا تھا اور یوں چائے کی اس پیالی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا گلیشیر پس پردہ پگھلنا شروع ہوگیا اور پردے کے پیچھے ایک مذاکراتی عمل کا آغاز ہوگیا تھا جو کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی تجدید پر منتج ہوا تھا۔ کئی برس ہو چکے ہیں مگر چائے کی پیالی سے اُٹھنے والی بھاپ کے اثرات اب بھی قائم ہیں اور پاکستان اور بھارت مخاصمت کے کسی نئے دور میں داخل نہیں ہوئے۔ چائے کی دوسری پیالی جسے شہرت ہی نہیں ملی بلکہ اس کے اثرات آنے والے دنوں تک خطے پر قائم رہیں گے کابل کے ہوٹل میں پاکستان کے حساس ادارے کے سربراہ جنرل فیض حمید کی تھی جس کی چسکیوں میں جنرل فیض نے افغانستان میں خانہ جنگی اور پاکستان پر اس کے اثرات کے خدشات پر مبنی سوال کے جواب میں ایک جملہ کہا تھا ’’آل از ویل‘‘۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان پونے دوعشرے کی جاں گسل جدوجہد کے بعد کابل میں داخل ہو چکے تھے اور افغانستان کے صدر اشرف غنی ایوان صدر کو ویران چھوڑ کر کوچ کر چکے تھے۔
اُدھر طالبان کابل میں فاتحانہ داخل ہوئے اِدھر جنرل فیض کابل کے ہوٹل میں چائے کی پیالی تھامے عالمی منظر پر نمودار ہوئے۔ جنرل فیض کی اس انداز سے اور اس موقع پر کابل میں موجودگی پر پاکستان میں دبے لفظوں میں تنقید ہوئی مگر بھارت اور امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں نے اسے پاکستان کی طرف سے فتح مندی کا تاثر جان لیا۔ انہوں نے جنرل فیض کی لہرائی جانے والی چائے کی پیالی کو جشن فتح کا ایک انداز سمجھ لیا۔ ظاہر ہے یہ وہی طاقتیں تھیں جو پونے دوعشرے تک پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام عائد کرتی رہیں۔ حد تو یہ کہ جنرل پرویز مشرف جی جان سے مغرب پر فدا ہوئے مگر وہ بھی مسلسل ڈبل گیم کے الزام کی زد میں رہے۔ ڈبل گیم کا مطلب یہ تھا کہ ایک طرف پاکستان امریکا کے دبائومیں ڈرون حملوں کے لیے ائر بیسز اور زمینی سپلائی کے لیے راہداری فراہم کیے ہوئے تو دوسری طرف پاکستان طالبان کے سخت گیر گروپ حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرتا ہے اور حقانی نیٹ ورک امریکی فوج پر تباہ کن کارروائیاں کرتا ہے۔ شاید ایک اور عسکری مفکر حمید گل اسی الزام کو رومانوی اور افسانوں ٹچ دے کر کہہ چکے تھے کہ پاکستان نے سی آئی اے کی مدد سے سی آئی کو شکست دی۔ یوں کابل کے ہوٹل میں چائے کی پیالی بہت سی انائوں کو زخمی کرگئی اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ پیالی مستقل نزع کا سامان بن کر رہ گئی۔
مغربی طاقتیں طالبان کو پاکستان کا پروجیکٹ سمجھ رہی تھیں اور ان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کو وہ پاکستان کے دیرینہ خواب کی تکمیل اور حکمت عملی کی کامیابی سمجھ رہے تھے سو انہوں نے اپنے تئیں پاکستان کا کھیل اسی پر اُلٹ ڈالنے کا راستہ اپنایا۔ یہی وہ دن تھے جب ایک امریکی اخبار میں یہ مضمون شائع ہوا کہ امریکا کے پاس افغانستان سے نکلنے کے بعد خطے میں کیا آپشن ہے ایسے میں جب کہ پاکستان بھی امریکا کی کسی جنگ کا مزید بوجھ اُٹھانے سے کترا رہا ہے تو مضمون میں ہی اس کا جواب تھا کہ امریکا کے پاس پاکستان کے ساتھ نباہ کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ امریکا پاکستان کی کلائی مروڑنے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کا استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے آپشن یہی تھا کہ اس نے طالبان کی صورت میں ہاتھوں سے جو گرہ لگائی ہے اسے دانتوں سے کھولنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ اس سوچ کی بدولت پاکستان اور طالبان حکام کے درمیان بداعتمادی کا ماحول کبھی ختم نہیں ہوسکا۔ طالبان کو اندازہ تھا کہ پاکستان کسی بھی لمحے دبائو میں آکر اپنی افغان پالیسی سے یوٹرن لے گا تو انہوں نے ٹی ٹی پی کے دبائو کو تحلیل کرنے کے بجائے بحال رکھنے کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان واقعتا امریکا کے ساتھ تعاون اور اشتراک کے ایک نئے دور میں داخل ہوا اور یوں طالبان اور پاکستان منزل کے قریب پہنچ کر دو الگ سمتوں کو چل دیے۔ اب طالبان اور پاکستان کے درمیان فاصلوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک محدود سی جنگ کا اسکرپٹ بھی برسوں سے تیار ہے۔
جب سے اسرائیل کے بعد بھارت کو امریکا کا دوسرا تزویراتی شراکت دار بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے تو ان کی کوشش ہے کہ اب انڈو پاک سرحد پر محبتوں کے پھول کھلتے رہیں تاکہ بھارت کی ترقی کے سفر میں راہ کا کوئی کانٹا موجود نہ رہے۔ اس کے برعکس اگر کشیدگی کو بحال رکھنا ضروری ہو تو کانٹوں بھری اس فصل کے لیے افغانستان کی ڈیورنڈ لائن ہی کھیت کا کام دیتی رہے۔ پاکستان کی طرف سے خطرے کا بورڈ واہگہ بارڈر سے اُٹھا کر دریائے سندھ میں بہانا بھی کوئی آپشن نہیں بلکہ اس بورڈ کو واہگہ سے اُٹھا کر طورخم میں نصب کرنا تقاضا ہے تاکہ دونوں ملک دہشت گردی دہشت گردی کھیلتے رہیں اور بھارت ان کی پہنچ اور سوچ سے آگے نکل جائے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف ایک مذہب ایک زبان ایک ثقافت بلکہ خونی رشتے ہیں۔ پاکستان جیسی کثیر الاقومیتی ریاست اس عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ماضی قریب میں بھی پاکستان کی سرزمین سے ڈرون اُڑکر افغانستان کے عام لوگوں کا قیمہ بناتے تھے۔ طالبان تو کمیں گاہوں میں ہوتے تھے اور ظاہر ہے وہ امریکی ڈرون کا استقبال کرنے کے لیے تو زمین پر موجود نہیں ہوتے تھے مگر اس کی زد جنازوں اور شادیوں میں شریک کھیتوں میں کام کرنے والے عام لوگوں پر پڑتی تھی۔ اس کو ’’کولیٹرل ڈیمج‘‘ کی خوبصورت اصطلاح کی قبا پہنا دی گئی تھی۔ ان ڈرون حملوں میں امریکا نے دو سو اسامہ بن لان اور ہزاروں ملا عمر ماردیے مگر بعد میں پتا چلا کہ ملا عمر تو طبی موت مرے اور اُسامہ بن لان ایبٹ آباد میں مقیم تھے اور ان کے جو ہم شکل مارے جاتے رہے وہ عام افغان شہری تھے۔ یہ اور اس طرح کے لاتعدا د واقعات نے طالبان اور پاکستان کو قریب ہو کر بھی قریب نہیں ہونے دیا۔ انہی واقعات کو بنیاد بنا کر ٹی ٹی پی جیسے گروہ پاکستان میں کارروائیاں کرتے رہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ طالبان خود کو افغانستان کا جائز اور قانونی حکمران سمجھ رہے ہیں وہ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے لڑ کر آزادی حاصل کی اور پاکستان نے ان جنگوں میں ان کی مدد کرکے حقیقت میں اپنا دفاع اور معیشت مضبوط کی۔ اس لیے وہ سات جماعتی افغان جہادی راہنمائوں کی طرح پاکستان کے احسانات کا زیادہ ذکر نہیں کرتے۔ یہاں یہ فرق ہے کہ طالبان افغان جہادیوں کی دوسری نسل ہے۔ افغان جہادی کمانڈر جلال الدین حقانی کی جگہ ان کے طالب بیٹے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی میدان میں ہیں۔ ہماری جانب بھی حمید گل کی جگہ فیض حمید کا آنا بھی ایک نئی نسل کے آگے آنے کا ثبوت تھا۔ یوں چائے کی پیالی نے کہیں امن کے پھول کھلائے اور کہیں جنگ کے شعلے بھڑکا دیے۔ چائے کی پیالی میں طوفان تو سنا تھا مگر چائے کی پیالی کا طوفان ہم کئی برس سے طورخم بارڈر پر دیکھ رہے ہیں۔