کراچی ۔۔۔ سیف سٹی؟

364

سندھ پولیس اور این آر ٹی ایس منصوبے کے ایک معاہدے کی منظوری وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دی ہے اس مقصد کے تحت اسمارٹ سیف سٹی پر 1300 سی سی ٹی وی کیمرے 300 مقامات پر نصب کئے جائیں گے یہ کہہ کے ریڈ زون اور کوریڈور میں نصب کے جائیں گے ان کیمروں میں گاڑیوں میں نمبر پلیٹ کو پڑھنے کی بھی کی بھی صلاحیت بھی ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا 193 کھڑیلو میٹر طویل نیٹ ورک 18 تھانکوں میں بھی حاصل ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا 193 کلومیٹر طویل نیٹ ورک 18 تھانوں کو جوڑے گا یہ کیمرے پولیس کے مرکزی دفتر کے کمانڈ ایند کنٹرول سینٹر سے منسلک ہوں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس منصوبے کا بڑی شدت سے انتظار تھا اس منصوبے پر 5.5 بلین روپے کی لاگت آئے گی۔ سیف سٹی منصوبہ کے تحت شہر کی نگرانی اور جرائم پر قابو پانے کے لیے مفید کام انجام دیا گیا ہے کراچی میں مختلف مقامات پر کیمرے نصب ہیں۔ نجی طور پر بھی حفاطتی مقاصد سے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں یہ ایک مفید منصوبہ ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا شہر کے اکثر علاقوں میں سی سی ٹی وی کیمرے ہونے کے باوجود، جرائم ، قتل ، ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو پایا جاسکا۔ ایک زمانے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی سب سے زیادہ پرامن شہر تھا۔ اندرون ملک سے لوگ بے خطر روزگار کے حصول کے لیے آتے تھے اگر گھر نہیں ہے تو شہر کے فٹ پاتھ رات سونے کے لیے موجود ہوتے تھے لیکن اب اسٹریٹ کرائم کو کراچی کی شناخت بنادیا گیا ہے۔ اس کے اسباب تو بہت ہیں لیکن وزیراعلیٰ سے یہ سوال کرنا حق بجانب یہ کے ان کے زیر انتظام پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے شہر کو جرائم سے پاک کرنے میں کیوں ناکام ہیں اس سے زیادہ خوفنات بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں میں خود تھانیدار اور پولیس کے اہلکار ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں۔ شہادت کے لیے ایک مثال کافی ہے جس کے مطابق ایک سینئر صحافی کو بس سے اتارکر اغواء گیا جس کے بعد ان کے خلاف کاروائی کی گئی منصوبوں پر خوش ہونا اپنی جگہ لیکن شہر کو محفوظ بنانے کے لیے کیمروں کی تنصیب کافی نہیں ہے ۔ پھر بھی امید کی جاسکتی ہے کہ کاش کراچی ’’ سیف سٹی ‘‘ بن جائے۔