رمضان کا مبارک مہینہ تیزی سے گزر رہا ہے اور اس کا پہلا عشرہ ختم ہونے کو ہے۔ ایسے میں بچپن کی یاد میں ایک فلم کی طرح ذہن میں چل رہی ہیں۔ آدمی بوڑھا ہوجائے تو اسے ہر خوشی کے موقع پر اپنا بچپن یاد آتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ
میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
مسلم برصغیر میں رمضان کا مہینہ ایک جشن کے طور پر منایا جاتا تھا۔ نیکیوں کا جشن، سماجی تعلقات میں ہمدردی اور غمگساری کا جشن۔ اب تو بھارت کی مودی حکومت شہروں کے اسلامی نام بدل کر انہیں ہندوتوا کا روپ دے رہی ہے۔ اس نے الٰہ آباد کا نام بھی بدل دیا ہے۔ حالانکہ اس شہر پر اسلامی تہذیب و ثقافت کی چھاپ بہت گہری تھی اور خود ہندو خاندان بھی اس تہذیب میں رنگے ہوئے تھے۔ مشہور ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو ہمیشہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے ’’خدا حافظ‘‘ کہتے اور خود کہیں جاتے تو ’’السلام علیکم‘‘ سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے تھے۔ وہ پہلی مرتبہ بھارت کے وزیراعظم بنے تو انہیں قوم سے خطاب کے لیے تقریر کا مسودہ ہندی کے نانانوی الفاظ میں لکھ کر دیا گیا لیکن وہ اسے پڑھ نہ سکے اور ان کی خواہش پر اسے اردو میں تبدیل کیا گیا۔ الٰہ آباد کو اکبر الٰہ آبادی کی وجہ سے خصوصی شہرت حاصل ہوئی جن کی مزاح میں گندھی ہوئی طنزیہ شاعری نے پورے برصغیر میں ایک ہلچل مچادی تھی۔ ان کا صرف ایک شعر ملاحظہ ہو۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
الٰہ آباد میں علامہ اقبال کے اس خطبے کو بھی خاص شہرت حاصل ہوئی جس میں انہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی علاحدہ مملکت کا تصور پیش کیا تھا یہی تصور بالآخر پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا اور علامہ اقبال ’’تصور پاکستان‘‘ قرار پائے۔
اسی الٰہ آباد میں ہمارے بھی بچپن کے چند سال گزرے۔ ہمیں یاد ہے کہ اس شہر میں جشن رمضان بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ رمضان کی آمد سے پہلے اس کی تیاری شروع ہوجاتی تھی۔ مسجدوں میں نیا رنگ و روغن کیا جاتا، نئی صفیں بچھائی جاتیں اور وضو کے لیے نئے لوٹے خریدے جاتے تھے۔ مسلمان استقبالِ رمضان کے لیے اپنے گھروں کی بھی ٹیپ ٹاپ کرتے تھے۔ ہندو دکاندار اور تاجر رمضان کی آمد پر اپنی دکانوں اور کاروباری مراکز کو سجاتے اور مسلمان صارفین کے لیے رمضان بازار لگاتے تھے۔ جس میں اشیائے صرف سستے داموں فراہم کی جاتی تھیں۔ اس زمانے میں احترام رمضان آرڈی نینس تو لاگو نہ تھا لیکن کیا مجال ہے کہ کوئی ہوٹل، کوئی چائے خانہ یا کوئی ریستوران کھلا نظر آجائے۔ پردے کے پیچھے بھی کھانے پینے کا کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ہندو حلوائی بھی اپنی مٹھائی کی دکانیں دن میں بند رکھتے اور عصر کے بعد کھولتے تھے۔ وہ زیادہ تر افطاری اور سحری کا سامان تیار کرتے اور مسلمان ملازمین کے ذریعے فروخت کرتے تھے۔ جوں جوں سورج ڈھلتا بازاروں کی رونق بڑھ جاتی اور لوگ جلدی جلدی خریداری کرکے گھروں کی جانب قدم بڑھاتے نظر آتے۔ اُس زمانے میں مساجد میں لائوڈ اسپیکر کا استعمال عام نہ تھا، شاید نئی نئی ایجاد تھی اور علما نے یہ فتویٰ دے رکھا تھا کہ یہ شیطانی آلہ ہے جس کا استعمال شریعت
کی رو سے جائز نہیں۔ اب حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ لائوڈ اسپیکر کا سب سے زیادہ استعمال مساجد ہی میں ہوتا ہے۔ بہرکیف ہمارے محلے کی مسجد میں ایک نقارہ (بڑا ڈھول) رکھا ہوا تھا، رمضان کے دنوں میں اس کی طنابیں کس کر اسے فعال بنادیا جاتا تھا۔ سحری اور افطاری کے وقت اس پر ضرب لگائی جاتی تو اس کی آواز سے پورا محلہ گونج اُٹھتا اور سب کو پتا چل جاتا کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے یا افطاری کا وقت شروع ہوگیا ہے۔ بغیر لائوڈ اسپیکر کے اذان بھی اپنے وقت پر ہوتی تھی اور مسجد نمازیوں سے بھرجاتی تھی، جو لوگ عام دنوں میں نماز گنڈے دار پڑھتے تھے یعنی کبھی پڑھی کبھی چھوڑ دی، وہ بھی رمضان میں پکے نمازی بن جاتے تھے۔ بچے بھی بڑے ذوق شوق سے نماز پڑھتے تھے۔ رمضان کے دوران نوجوانوں میں ڈاڑھی رکھنے کا رواج بھی عام تھا۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو حافظ تھے، رمضان سے پہلے ہی باریش ہوجاتے تھے تا کہ کسی مسجد میں انہیں تراویح پڑھانے کا موقع مل جائے۔ ان میں سے بعض مستقل باریش رہتے اور بعض عید کی چاند رات کو ڈاڑھی کا صفایا کرا دیتے تھے جس پر انہیں بزرگوں کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا۔
بچوں کے لیے واقعی رمضان ایک جشن کا درجہ رکھتا تھا۔ سحری اور افطاری میں ان کی خوشی قابل دید ہوتی تھی۔ مائوں کی کوشش ہوتی تھی کہ پانچ چھے سال کے بچے سحری میں بیدار نہ ہونے پائیں تا کہ وہ روزہ رکھنے پر اصرار نہ کریں لیکن ان کی یہ کوشش بالعموم رائیگاں جاتی تھی۔ سحری کے وقت گھر میں اتنی ہلچل ہوتی تھی کہ بچے ازخود جاگ اُٹھتے تھے اور منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر دسترخوان پر آموجود ہوتے تھے، وہ ڈٹ کر سحری کھاتے اور اعلان کرتے کہ وہ روزے سے ہیں جس پر انہیں باور کرایا جاتا کہ بچوں کا روزہ آدھے دن کا ہوتا ہے اور مائیں انہیں دن کے بارہ بجے پانی پلا کر روزہ کھلوا دیتی تھیں۔ البتہ بچے سات سال کی عمر کو پہنچتے تو ان کی دھوم دھام سے روزہ کشائی ہوتی۔ ان کے لیے نیا جوڑا سلوایا جاتا اور روزہ کشائی کی تقریب میں عزیز واقارب کو مدعو کیا جاتا جو روزہ دار بچے کے لیے باقاعدہ تحائف لے کر آتے۔ ہمیں یاد ہے اُن دنوں نوٹوں کے ہار پہنانے کا بھی رواج تھا۔ روزہ دار بچوں کی خاص طور پر نگرانی کی جاتی تھی اور انہیں بتایا جاتا تھا کہ اللہ میاں ان کی ہر حرکت کی نگرانی کررہے ہیں، اگر وضو کرتے وقت انہوں نے جان بوجھ کر پانی کا ایک گھونٹ بھی حلق سے اُتار لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی تلافی ساری عمر روزہ رکھ کر بھی نہیں ہوسکے گی۔ اُس زمانے میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں تو تھیں نہیں اس لیے روزہ دار بچوں کی ساری توجہ قرآن کی تلاوت اور ذکر اذکار پر مرکوز ہوتی تھی۔
برصغیر میں تحریک پاکستان کا غلغلہ بلند ہوا تو یوپی کے مسلمانوں خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں جو جوش و خروش پایا جاتا تھا وہ شاید ان علاقوں میں بھی نہیں تھا جہاں پاکستان بننے والا تھا۔ البتہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان بننے سے ہندوئوں پر ان کا رعب قائم ہوجائے گا۔ چناں چہ 1940ء سے 1947ء تک جتنے رمضان آئے ان میں یوپی کے مسلمانوں نے پرجوش دینی حمیت کا مظاہرہ کیا، آخر رمضان ہی کی ستائیسویں شب کو پاکستان وجود میں آگیا۔ اور آج پاکستان کا جو حال بے ضمیر سیاستدانوں اور مقتدرہ نے کردیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔