آج صبح دل پر جبر کر کے سحری کا وقت جاننے کے لیے چند منٹ کے لیے ٹی وی آن کیا تو ایک ’’شرمناک‘‘ اور ’’خوش کردینے والی‘‘ خبر پر نظر پڑی۔ اسکرین کی پٹی پر خبر چل رہی تھی کہ: ’’اسرائیلی فوج میں شامل جنوبی افریقی شہریوں کو ملک واپسی پر گرفتار کیا جائے گا‘‘۔ یہ خبر اسلام کے قلعے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے میرے لیے شرمناک تھی کہ انسانیت کے مجرم اسرائیل کی مدد کرنے والوں کے خلاف یہ اعلان ایک غیر مسلم ملک نے کیا ہے۔ میری خوشی بھی اسی خبر میں پنہاں ہے کہ ’’انسانیت ابھی زندہ ہے‘‘۔ ابھی چند لمحے پہلے ہی میں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی تو یہیں رک گیا۔ میرا پورا وجود لرز گیا۔
’’اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس شہر سے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنادے اور ہمارے لیے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنادے‘‘۔ (النساء: 75)
غزہ کے حالات کے پس منظر میں بار بار اس آیت کے الفاظ کو پڑھتا ہوں اس کے مطلب اور مطلوب کے بارے غور کرتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں اس کا مخاطب کون ہے؟ ربّ کس سے کہہ رہا ہے اور کن کے لیے کہہ رہا ہے کہ ’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو اور کمزور مرد وں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کررہے ہیں…‘‘ یہ تو واضح ہے کہ ساٹھ ستر سال سے اور خاص طور پر پچھلے چھے ماہ سے انسانیت کے دشمن صہیونیوں کے بدترین ظلم کا شکار اہل غزہ وہ لوگ ہیں جن کو مدد کی ضرورت ہے اور وہاں کے بچے، عورتیں، بزرگ، زخمی، بیمار ظلم کو روکنے کے لیے پکار رہے ہیں۔ صہیونی درندگی کی تازہ لہر میں تیس ہزار سے زیادہ بے گناہ نہتے اہل غزہ کی زندگیاں چھین لی گئیں۔ اتنا لہو بہا کر بھی خونخوار صہیونی درندوں کے خون کی پیاس نہیں بجھ رہی۔ بموں کی بارش دن رات جاری ہے۔ بھوک، افلاس، خون اور تباہی کے درمیان آہیں بھرتی مائیں اور بلبلاتے بچے فریادیں کر رہے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ جن کو مدد کرنی ہے وہ کون ہیں؟کیا اس آیت کے مخاطب عالمی قوانین کے نام نہاد محافظ سپر پاور ہیں یا سپر پاور کی دست نگر اقوام متحدہ؟ جواب واضح ہے کہ یہ ’’سویپر‘‘ پاورز اور ان کا کٹھ پتلی اقوام متحدہ مظلوموں کے نہیں، اسرائیل اور ہر ظالم کے محافظ اور سرپرست ہیں۔ پھر کیا اس آیت کا مخاطب کوئی حافظ، کوئی حاجی، کوئی قاضی، کوئی قاری یا کوئی ملا، کوئی آیت اللہ یا کوئی مجاہد ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے سب سے پہلے میری نظر دنیائے اسلام کی سب سے منظم، بہادر، جری پیشہ ور اور جہاد کی علمبردار فوج پر پڑی۔ کیونکہ یہی وہ فوج ہے جس کی طرف مظلوم فلسطینیوں کی نظریں اٹھتی ہیں۔ (پڑوس میں مظلوم کشمیری ماؤں بہنوں بیٹیوں کی مدد مدد کی پکار تو دم توڑتی آخری سسکیوں میں بدل گئی ہے) کیا اس آیت کے مخاطب غزہ کے مظلوموں کے پڑوسی ہم زبان عرب ملک، عرب حکمران اور عرب افواج ہیں؟ تو یاد رکھیے غزہ کے مظلوموں نے کٹھ پتلیوں سے کبھی امیدیں وابستہ کی ہیں نہ ان کو کبھی مدد کے لیے پکارا ہے۔ اہل غزہ ان کی حیثیت اور خصلت سے واقف ہیں۔
کیا اس آیت کے مخاطب چالیس مسلم ممالک کی فوج کے جرنیل اور اس فوج کا سپہ سالار ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس عظیم غیر مرعی فوج کے سپہ سالار اعظم نے تلواروں کا رقص سیکھ لیا ہے۔ اس سوال کا جواب اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ کیا چالیس ملکوں کی ’’فوج‘‘ مسلمانوں کے لیے بنی ہے یا مسلم ممالک پر مسلط غاصب حکمران اشرافیہ (اصرافیہ) کے تحفظ کے لیے؟
کیا اس آیت کی مخاطب حزب اللہ ہے؟ شام کے نصیری حکمران ہیں؟ اردن کے بادشاہ اور اس کی فوج ہے؟ ابناء الفراعنہ کا وارث سیسی اور مصر کی فوج ہے یا حرمین کے کوئی خوش الحان امام ہیں یا حرمین کا کوئی خادم؟ دنیا پرستی کی دوڑ میں غرق ان ممالک سے کسی جرأت مندانہ قدم کی توقع کسی کو نہیں۔ تو پھر ایک اور طرف نظر جاتی ہے۔ کیا اس آیت کا مخاطب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امیدوں کا مرکز ترکیہ یا ترکیہ کا اردوان ہے؟ دکھ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے بہت عالی شان امیدوں کے مقابل فی الحال اس طرف سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
تو کیا دو سپر پاورز کو شکست دینے والے افغانی اور اسلامی افغانستان کے مجاہدین طالبان اس آیت کے مخاطب ہیں۔ تو عرض ہے کہ فی الحال طالبان کی طرف سے اہل غزہ کے لیے حمایت کی کوئی آواز ابھی تک سنائی نہیں دی۔ میرے طالبان ہیروز ابھی ریلوے لائن کی پٹڑیاں بچھانے میں مصروف ہیں۔ فرصت ملے گی تو وہ اس آیت پر غور کریں گے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ طالبان کی حکومت کی یہ دوسری قسط ہے۔ ملا عمر پہلے دور کا لیڈر تھا اس کا عہد اس کے ساتھ ہی بیت گیا اور وہ فوت ہوگیا! ٹی وی کی خبر سے تو یہ پتا چلا کہ ساری امت میں سے ابھی اس آیت کی تلاوت تک کوئی مسلم حکمران نہیں پہنچا۔ اس آیت کو مسلم حکمرانوں اور مسلم جرنیلوں سے پہلے جنوبی افریقا کی غیر مسلم حکومت نے پڑھ لیا ہے اور سمجھ بھی لیا ہے۔
آخری بات! اس آیت کو پڑھنے والے ہر مسلمان کی طرح اس کا مخاطب میں ہوں اور اپنے ربّ کے عطا کردہ اختیار کی حد تک اس کے لیے ربّ کے حضور جوابدہ بھی ہوں۔ اے طاقتورو! تمہیں کیا ہوگیا ہے… تمہیں مظلوم عورتوں، بچوں، بوڑھوں کی دلدوز چیخیں کیوں سنائی نہیں دے رہیں۔ تمہارے کان بند ہیں یا پھر تمہارے دل پتھر ہوگئے اور ان پر مہر لگ گئی ہے؟