خود شناسی

400

رمضان وہ برکتوں والا مہینہ ہے جس میں نیکیوں کا اجر اللہ کی طرف سے کئی گنا ہوجاتا ہے۔ دراصل روزہ انسانوں کے طبائع ان کے عادات و اطوار ان کے اعمال و افعال کو پاکیزہ بنانے خوبیوں اور بھلائیوں کو نکھارنے کے کام کرتا ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے والے پورے خلوص سے اپنی شخصیت کو نکھارنے اور سنوارنے کا عزم کرلیں اس لیے ضروری ہے کہ رمضا ن میں لوگ اپنا احتساب آپ کرنے کی مشق شروع کردیں۔ کسی ایسے وقت میں جبکہ تنہائی، خاموشی اور یکسوئی حاصل ہو آپ احتساب کی میز پر اپنی شخصیت کو لٹا دیجیے اور تنقید کے نشتر سے اس پر عمل جراحی شروع کردیجیے اپنے میلانات، رحجانات خیالات اپنی آرزئوں خواہشوں اور عادتوں کی ایک ایک پرت کو اٹھا کر پوری احتیاط سے دیکھیے کہ اس میں شرو فساد پھیلانے والے کون کون سے زہریلے جراثیم پائے جاتے ہیں۔ آپ کو اپنی پچھلی زندگی کے واقعات و حوادث میں اخلاقی خوبیوں اور اخلاقی خرابیوں کے اثرات کا ایک اچھا خاصا تخمینہ مل جائے گا کہ زندگی کے مرحلوں میں کہاں کہاں آپ سے لغزشیں ہوئیں اور کن کن مواقع پر ترغیبات پر قابو پانے میں آپ کامیاب رہے۔

انسان اپنا رازدار آپ ہے مگر کبھی وہ خود کو جاننے سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش نہیں کرتا یہ بڑا تکلیف دہ جراحی کا عمل ہے، مگر رمضان اس عمل کو آسان بنا دیتا ہے، اس مشق کے بعد جب آپ اپنے اندرون کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کا قابل ہوجائیں گے تو خود احتسابی کا یہ عمل اتنا دشوار اور تکلیف دہ نہیں رہے گا بلکہ خود شناسی کا لطف آپ کے اندر ایک نئی امنگ پیدا کردے گا۔ اپنے محسوسات اور اپنے افعال و اعمال کے جائزہ کو آپ تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

(۱) آپ نے خود اپنی ذات کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا، کیا آپ نے اسے حقیقی مسرت اور قلبی طمانیت پہنچانے کی جدو جہد کی یا اسے جھوٹی اور ناپائیدار خوشیوں کے کھلونے د ے کر بہلاتے رہے۔

(۲) اپنی گزشتہ زندگی میں دوسروں کے ساتھ آپ کا کیا عمل رہا اپنے اہل خاندان اپنے پڑوسیوں اپنے ملک والوں اور ان تمام انسانوں کے بارے میں جن کا واسطہ آپ سے پڑتا رہا آپ کا کردار کیا تھا ان تعلقات و روابط میں کیا آپ خیر خواہی اور عدل و انصاف سے کام لیتے رہے یا آپ ان کے ساتھ خود غرضی سے پیش آئے اور ان کی حق تلفی کرتے رہے۔

(۳) آپ نے اپنے ربّ سے جو آپ کا خالق رازق محافظ مالک اور آقا ہے کس طرح کا تعلق قائم کر رکھا ہے کیا آپ نے اس کی سچے دل سے اطاعت کی اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے کیا آپ نے ا س کی پسند اور رضا کے مقابلہ میں اپنی پسند اور خواہش کو ترک کیا، اس کے دین کے استحکام و ترقی کے لیے آپ نے اپنی صلاحیتوں سے کس قدر کام لیا اور اپنے اوقات میں سے اس کی خاطر کتنا وقت صرف کیا۔؟

شخصیت کے اس تجزیہ اور تخمینہ کے بعد آپ کو بڑی حد تک یہ اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی گزری ہوئی عمر جو اب لوٹ کر نہیں آسکتی نفع بخش رہی یا نقصان رساں اور اسی تناسب سے آپ اپنے محسوسات اور اپنی عادتو ں کے حسن و قبح سے بھی واقف ہو جائیں گے اور پھر خود آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جو عمر اب آپ کی رہ گئی ہے اور جس کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ کب تک رہے گی اور کب ختم ہوجائے گی اس کو اب آپ کس طرح گزاریں۔ یاد رکھیے کہ جو زندگی آپ گزار چکے ہیں وہ ایک رقم ہے جسے آپ نے خرچ کردیا ہے اور اب اس کے حساب کتاب کے سوا آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا اورجو زندگی باقی رہ گئی ہے وہ ایک پونجی ہے جو سر بمہر آپ کے ہاتھ میں محفوظ ہے اور آپ کو اختیار ہے کہ اس کو نادان مسارفین کی طرح ضائع کردیں یا عاقبت اندیشوں کی طرح اس کو نفع بخش بنائیں۔ ہر لمحہ جو گزرہا ہے وہ اس پونجی کو گھٹاتا جا رہا ہے۔ اس لیے آپ کو اب ذرا سنبھل کر اپنی زندگی کے نفع و نقصان کا صحیح اندازہ لگا لینا چاہیے اور ان کے اسباب و محرکات کو جان لینا چاہیے تاکہ آپ اپنی بقیہ پونجی کو بہتر طریقہ سے صرف کرسکیں۔

اب ذرا سوچیے کہ یہ اہم مگر کٹھن کام جو احتساب ذات سے اصلاح حال تک پھیلا ہوا ہے، آپ کس طرح کر سکیں گے؟ نفس حیلے بہانے کرے گا کہ مشقت برداشت نہ کی جائے گی، برسوں کی بگڑی ہوئی عادتیں آڑے آ ئیںگی کہ اس جنجال میں کیوں پڑا جائے؟ مگر جہاں تک ایک مطمئن کامیاب اور آسودہ زندگی کا سوال ہے اس کٹھنائی سے گزرنا ہی پڑے گا۔ کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ آپ ایک صحت مند اور باوقار شخصیت اور ایک مطمئن روح کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ اور اگر آپ اس کے آرزو مند ہیں، تو آپ کو بگڑی ہوئی عادتوں کے چنگل اور سرکش نفس پر قابو پانے کے لیے پورے خلوص اور مضبوط ارادے کے ساتھ کوشش کرنی چاہیے۔ ترغیبات نفس اور عادتوں پر قابو پانے کے لیے روزہ آپ کی مدد کرے گا۔