سائفر کیس: حقِ جرح ختم ہو جائے تو حق تلفی ہوتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

194

اسلام آباد: عدالت عالیہ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ حقِ جرح ختم ہو جائے تو آپ کی حق تلفی ہوتی ہے۔

بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیل کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 5 اکتوبر 2022ء کو انکوائری کس نے شروع کی، اس سلسلے میں کوئی دستاویز عدالتی ریکارڈ میں موجود نہیں ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیس بالکل بے بنیاد ہونے کی وجہ سے ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے عدالت کو بایا کہ تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں بتایا ہےکہ 5 اکتوبر کو ڈی جی ایف آئی اے کی ہدایت پر انکوائری شروع کی گئی جب کہ ڈی جی ایف آئی اے اس کیس میں گواہ بھی نہیں ہیں۔ یہ انکوائری کمپلینٹ دائر ہونے سے قبل شروع ہوئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ وائٹ کالر کیس بھی نہیں نا ہی مرڈر کیس کی طرح کہہ سکتے ہیں بلکہ یہ مکس ہائبرڈ کیس ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حقِ جرح ختم ہو جائے تو آپ کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ملزم عدالت کی نظر میں فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شام کے ٹرائل کی کیا حیثیت ہو گی ؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے۔ کیا بے چینی تھی کہ رات 9 بجے بھی ٹرائل ہو رہا تھا؟۔ آرٹیکل 10 اے کے مطابق فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جانا لازمی ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اپیلوں پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔