پاکستانی معاشرہ بظاہر ایک اسلامی معاشرہ ہے، مساجد بھی آباد ہیں مذہبی تہوار بھی بہت یاد سے اور بہت اہتمام سے منائے جاتے ہیں۔ خیرات و زکوٰۃ کے حوالے سے اہل ثروت تو ایک طرف عام افراد جو خود بھی کسی نہ کسی حوالے سے محتاج اور ضرورت مند ہیں وہ بھی کسی کار خیر میں پیچھے نہیں ہیں، اکثر ان کے اپنے در پر آئے ہوئے کسی سوالی کو لوٹاتے ہوئے خود وہ ایک کیفیت سے گزر جاتے ہیں۔ دنیا میں اگر کہیں مسلمانوں پر کوئی افتاد ٹوٹ پڑتی ہے تو مالی ایثار اور اخوت کے جذبات کے اظہار میں کبھی بھی اور کہیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ یہ مناظر بارہا آسمان دنیا نے دیکھے اور ابھی حال ہی میں اہل غزہ کے حوالے سے اہل وطن کا مالی ایثار دیکھ ہی رہے ہیں۔ اسی طرح ملک میں وبائی مرض کورونا کا موقع ہو یا قدرتی آفات سیلاب یا زلزلے ہوں، اسلامی بھائی چارہ اور اخوت کی مثالیں قائم کرنے میں ہم کسی سے پیچھے نہیں، لیکن یہ ہم سب کیوں کر رہے ہوتے ہیں؟ دراصل ہم یہ اس لیے کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے گھر ہوں ہو یا ہمارے واعظوں کے بیانات یا پھر ہماری مساجد کے منبر و محراب یا وہ ماحول جس سے ہم متاثر ہوں، وقفے وقفے سے ان باتوں کا کسی نہ کسی انداز میں تذکرہ ہوتا ہے، یاد دہانی کرائی جاتی ہے، سیرت رسول اور اصحاب رسول اور اولیاء اللہ سے ان تمام واقعات کو جوڑا جاتا ہے۔ اگر تھوڑا سا اور گہرائی اور گیرائی میں جا کر سوچا جائے تو یہ جزوی عکس ہے اس معاشرے کا جسے ہم اسلامی معاشرہ کہتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ جس مکمل اسلامی معاشرت کو قائم کرنے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا عمومی طور سے عوام الناس میں اس کا تصور کہیں دور لاشعور میں چلا گیا ہے۔ معاشرہ میں رائج نیکیوں کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تہذیب، ثقافت، معیشت، معاشرت، سیاست، اس سمیت دیگر دائروں میں بھی اللہ کے احکامات اور شریعت سے رہنمائی حاصل کی جائے۔
گزشتہ دنوں ہر پاکستانی مضطرب ہوگیا جب سعودی عرب کے جریدہ اردو نیوز کی 3 فروری کی خبر کے مطابق سعودی عرب کی ماڈل رومی القحطانی کی مس اینڈ مسز گلوبل ایشین 2024، مقابلہ حسن ملائیشیا میں شرکت کی خبر شائع ہوئی۔ اس ماڈل کی قابل اعتراض تصاویر پوری دنیا میں گشت کرتی پھر رہی تھیں۔ گزشتہ سال ماہ نومبر کے آخر میں ریاض سیزن اور جدہ فلم فیسٹیول میں مقابلہ حسن تو نہیں ہوا تھا لیکن مضطرب ہونے کے لیے اہل غزہ کے درد کے ساتھ اور بہت کچھ بھی تھا۔ اْس وقت اْن تقریبات میں پاکستان بھی شریک رہا شاید اس لیے ہم مضطرب نہیں ہوئے۔ ملائیشیا میں مقابلہ حسن میں سعودی ماڈل کی شرکت پر پاکستان میں کچھ افراد نے سوشل میڈیا پر سعودی ماڈل کی تصاویر شیئر کیں اور تبصرہ کیا کہ سعودی عرب ’’بدل‘‘ گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم انجانے میں خود شیطان کی چالوں کا شکار ہوتے ہیں اس لیے کہ جب ہم نیم عریاں یا فحش تصاویر یا ویڈیو شیئر کرتے ہیں تو ہم مزید لوگوں کو ان چیزوں کو دکھاتے ہوئے اس گناہ میں شریک کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ نیت صرف ایک برے کام کی نشاندہی اور حیرت یا اضطراب کا اظہار تھا۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ بجائے عریاں تصاویر اور نازیبا ویڈیو شیئر کرنے کے ہم محض خبر کی حد تک کسی بھی برائی کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کریں اور دوسروں کو توجہ دلائیں اور لا علمی میں گناہ جاریہ جیسے گناہوں سے بچ سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرور غور کریں اگر ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اسلام صرف مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ تک مقید نہیں ہے تو پھر پاکستان جو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے وہاں تو ہر چیز ہی ’’بدل‘‘ گئی ہے۔ صبح سے شام تک ٹیلی ویژن پر جو نیم عریاں اور فحش مناظر ہمیں اشتہارات اور پروگراموں میں دکھائے جاتے ہیں، اس پر تو ہم بظاہر بالکل بھی مضطرب نہیں۔ کراچی میں چند ہفتے پہلے میراتھن ریس ہوئی اس میں مغرب زدہ خواتین نے جس حلیہ اور لباس میں شرکت کی وہ ہمارے سر شرم سے جھکا دینے کے لیے کیا کافی نہیں تھے؟ لیکن معاشرے میں کہیں بھی کوئی مذمت یا رد عمل نظر نہیں آیا۔ خواتین کرکٹ ٹیم اور دیگر خواتین کے قومی اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے پاکستان میں یا بیرون ملک مقابلہ حسن جیسے تو نہیں لیکن یہ تمام عوامل ہمیں اتنا بے حس تو بنا چکے ہیں کہ خدانخواستہ اگر کوئی مقابلہ حسن پاکستان میں منعقد ہو تو اندازہ کر لیں کہ ہمارے یہاں اس برائی کو برائی نہ ماننے والے کتنی بڑی تعداد میں ہوں گے؟۔ دراصل عوام کو ٹیلی ویژن اسکرین پر خواتین کو دیکھنے کا اس قدر رسیا بنا دیا گیا ہے کہ اب ٹیلی ویژن کے اشتہارات میں خواتین کو نہاتا تک دکھایا جارہا ہے، بس کیمرے کا یہ کرم ہے کہ ابھی وہ عریاں کندھوں سے نیچے نہیں دکھا پا رہا ہے۔ اس موقع پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ خواتین کے کھیلوں کو، انتظامیہ، کوچ بشمول شائقین اگر صرف خواتین تک محدود کیا جائے تو اس میں قطعاً کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو اس سے خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ خواتین کے لیے روزگار کے وسیع مواقع کے امکانات بھی ہیں، لیکن ان مقابلوں کی ٹیلی ویژن کوریج ہو یا خبروں میں جھلکیوں کی صورت، یہ سب شعائر اسلام کے سراسر خلاف ہے۔
ایک حدیث کے مطابق اسلامی معاشرت میں سلام کو عام کرنے، صلہ ٔ رحمی، کھانا کھلانے اور رات کو تہجد کی ادائیگی سے ایک مسلمان جنت میں داخل ہو سکتا ہے، اس بات کا ہر کلمہ گو کو یقین ہے اور کیوں نہ ہو کہ اللہ کے رسول نے یہ ضمانت دی ہے تو کیا بلِا سود معیشت، شائستہ تہذیب، بلِاعریاں ثقافت اور انبیا کی سیاست جیسے احکام پاکستان کو اقوام عالم میں نہ صرف اعلیٰ اور باعزت مقام بلکہ اغیار کی غلامی اور محتاجی سے نجات نہیں دلا سکتے؟ مسائل کم اور خوش حالی کا دور دورہ نہیں ہوسکتا؟ اس کا ہمیں کیوں یقین نہیں؟ جب کہ قرآن میں یہ تو اللہ کا وعدہ ہے، لیکن ہمارا المیہ ہے کہ بوجہ بحیثیت قوم اس راستہ کی طرف ہم نہ آنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی ہمیں اس سمت بڑھنے دیا جا رہا ہے۔ مغربی اقدار اور معاشرت ایک دوسرے کے مخالف اور متضاد ہیں۔ اسلامی معاشرت سراسر پاکیزگی کا تصور ہے اور مغربی معاشرت عریانی، بے حیائی، غلاظت اور گندگی کا ڈھیر۔ ایک مسلم معاشرہ اگر ان اقدار پر سمجھوتا کر لے تو اس کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ معاشرے میں رائج مغربی اقدار کے خلاف اگر رائے عامہ کو بیدار نہیں کیا گیا اور بڑے پیمانے پر مذمت نہیں کی گئی تو اس کلچر اور اقدار کو جو ہر دروازے پر دستک دے رہی ہے کیا آپ اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک سکیں گے؟۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے یا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے میں مسئلہ کا حل پنہاں نہیں، صرف جی ہی جی میں کڑھنے سے بے حیائی کا سد باب نہیں ہوسکتا جب تک کہ بڑے پیمانے پر سماجی مزاحمت نہ شروع کی جائے اور حیا کلچر کو معاشرے میں ہر سطح پر عام نہ کیا جائے۔