یہ احساس کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ایک بڑی قوت ہے مسلمانوں کے عروج و زوال کے سارے واقعات کا انحصار اسی احساس پر رہا ہے اسی یقین کے سہارے مسلمانوں باوجود قلت تعداد اور قلت اسباب کے دنیا کی بڑی بڑی قوتوں سے ٹکر لیتے رہے اور انہوں نے دنیا کی عظیم الشان سلطنتوں کے تخت الٹ دیے اور جب بھی یہ احساس کمزور پڑگیا اور اللہ کی معیت و پشت پناہی کا تعین پختہ نہ رہا ان کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور ان کے حوصلے پست ہوگئے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اب محض تذکرۂ زیب داستان نہیں رہی بلکہ اسے ہم اپنی سرحدوں پر اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ باوجود قلت تعداد اور وسائل و ذرائع کی دشواریوں اور اسلحہ و اسباب کی کمی کے ہم نے اپنے سے طاقتور دشمن کو اپنے ملک کی حدود سے مار بھگایا۔ (اشارہ ۱۹۶۵ کی پاک بھارت جنگ، یہ مضمون پہلی بار ۱۹۶۷میں روزنامہ حریت اخبار میں شایع ہوا تھا۔ مرتب)
جو جانباز سپاہی اس دشمن سے نبرد آزما تھے ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ محض قوم اور وطن کی محبت میں یہ قربانیاں پیش کررہے تھے! یا ان کے دلوں میں اللہ اور اللہ کے رسول کے کلمہ کی عظمت جوش مار رہی تھی وہ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور دشمن پر بے دریغ ٹوٹ پڑتے تھے ان کی کامیابی کا سبب یہی تھا کہ ان کے مقابلے میں جو دشمن یلغار کررہا تھا وہ اس موثر اور قومی جذبہ سے محروم تھا اس کے پاس کوئی ایسا کلمہ ٔ حق نہ تھا جو بے خطر جان دیدینے پر ابھار دے وطن اور قوم کا نعرہ اتنا جاندار نہیں ہوسکتا اور نہ قوم اور وطن کی پشت پناہی پر اتنا اعتماد کیا جاسکتا ہے جتنا اس یقین پر کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہماری مدد کے لیے ہمہ دم ہر جگہ موجود ہے۔
اللہ کی معیت ہی ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی قوت ہے اور یہی وہ ایک قوت ہے جو ہمارے دشمنوں اور دنیا کی تمام مادّہ پرست قوموں کے اسلحہ خانوں میں موجود نہیں وہ ہمارے فراہم کیے ہوئے مادی سازو سامان کے مقابلے میں پچاس گنا زیادہ سازو سامان تو لاسکتے ہیں مگر ایمان و یقین کی اس قوت کے مقابلے میں وہ کوئی جوابی طاقت لانے کی قدرت نہیں رکھتے اور ہماری یہ ایک طاقت ان کی ساری قوتوں کو شکست دے سکتی ہے اور ان کی ساری قوتیں مل کر بھی اس قوت کو پسپا نہیں کرسکتیں۔ ایمان کی اس روحانی قوت اور اس کے حیرت انگیز کارناموں کا ذکر ہم اب تک صرف پڑھتے اور سنتے آئے تھے مگر اب تو ہم نے خود اس کی کارفامائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ (اس کی حالیہ مثال اسرائیل اور غزہ کی جنگ ہے۔ مرتب)
اس لیے اب اس بارے میں کسی طرح کا شک نہیں رہنا چاہیے کہ جب ہم اپنے ربّ کو سچے دل سے پکاریں گے وہ ہماری مدد کرے گا اور ہم کو دوسروں کے سامنے شرمسار و ذلیل نہ ہونے دے گا تو کیا یہ دانش مندی کی بات نہ ہو گی کہ جس طرح ہم اپنی قوت مدافعت کو مستحکم کرنے کے لیے مادی اسباب و ذرائع کی فراہمی کی فکر کر رہے ہیں اور پوری قوم کو آنے والے مرحلوں کے لیے تیار کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں اس اصل قوت کو جو درحقیقت ہماری کامیابی کی ضامن ہے زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی فکر کریں اور اپنی فوجوں اور اپنے عوام میں اس کو برتنے اور اس سے کام لینے کا سلیقہ پیدا کریں کہ جب بھی ہم دشمنوں کی طرف کوچ کریں تو اللہ کی نصرت و تائید بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلے۔ اللہ کی معیت اور اس کی پشت پناہی پر ایمان اور یقین کو پختہ اور استوار کرنے کے لیے رمضان کا یہ مہینہ ایک بہترین موقع فراہم کررہا ہے جس کے ایک ایک لمحے کو اس غرض کے لیے کام میں لانے کی ضرورت ہے کہ نشرو اشاعت کے تمام ذرائع کو کام میں لاکر ہم لوگوں میں اللہ کی طرف رجوع کرنے کے جذبہ کو ابھاریں۔
اسی سورۂ بقرہ میں جس میں روزہ کے فرض ہونے کے احکام نازل ہوئے ہیں اللہ نے خود اہل ایمان کو اپنی رفاقت کی دعوت دی ہے۔ ان میں رمضان کے پورے روزے رکھنے کے لازمی قانون کے ساتھ ایک اور قانونی رعایت کا بھی ذکر کیا گیا کہ لوگ رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جاسکتے ہیں۔ پھر روزہ کے وقت کا تعین کیا گیا کہ کب کھانا پینا بند کردینا چاہیے۔ اور کس وقت افطار کرلینا چاہیے۔ مگر انہی آیات کے درمیان ایک فقرہ جو بظاہر سلسلۂ بیان سے الگ معلوم ہوتا ہے آگیا ہے اور وہ فقرہ ہے۔
’’اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم انہیں سنادو شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔ (البقرہ: ۱۸۶)
یہ فقرہ احکام رمضان کے درمیان ایک بہت بڑی بشارت بن کر آیا ہے کہ اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرنے اور اس کے شکر گزار بن کر رہنے والے جب حکم الٰہی کی اطاعت میں روزہ رکھ لیتے ہیں تو اللہ ان سے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہے کہ جب بھی اس کے یہ اطاعت گزار بندے اس سے عرض و معروض کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ دل ہی دل میں اپنے ربّ سے گزارش کرتے ہیں تو ان کی معروضات کو سن لیتا ہے اور صرف سنتا ہی نہیں بلکہ ان کے لیے مناسب فیصلے بھی صادر فرما دیتا ہے اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں کہ رمضان کا مہینہ ’’رفاقت الٰہی‘‘ کا مہینہ ہے کہ اللہ خود ہم کو اپنی رفاقت کے لیے بلا رہا ہے اور یہ ایک زریں موقع ہے کہ ہم اللہ سے اپنی رفاقت کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرلیں اور پورے خلوص و ایمان کے ساتھ اس کی بتائی ہوئی راہ راست پر چلنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں تاکہ آنے والے کسی بھی مرحلۂ سخت میں وہ اپنی تائید و نصرت سے ہم کو ثابت قدم رکھے اور ہم کو غلبہ و برکت عطا فرمائے۔