پی ڈی ایم حکومت کا نیا دور

805

شہباز شریف نے نو منتخب قومی اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی کے بعد دوسری بار وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا ہے۔ اس حکومت کی کمپوزیشن بھی وہی ہے جو سابق پی ڈی ایم حکومت کی تھی۔ 16 ماہ کی پرانی حکومت میں بھی مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم بڑی شراکت دار تھیں اب کی دفعہ بھی قرعۂ فال ان ہی پارٹیوں کے نام نکلا ہے البتہ سابقہ حکومت کی ایک اور اہم شراکت دار مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام اس کمپوزیشن میں شامل نہیں ہے۔ مولانا حالیہ انتخابات میں فقید المثال دھاندلی پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فی الحال اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے ’’فی الحال‘‘ اس لیے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف نے ان سے رابطہ شروع کر دیا ہے۔ وہ مولانا پر حکومت میں شامل ہونے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ مولانا سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے علاوہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں کا بھی حصہ رہے ہیں اور ان کی ساری سیاست اقتدار کے گرد گردش کرتی ہے اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنے موجودہ اصولی مؤقف پر کب تک قائم رہیں گے۔ تاہم یہ بات قابل تعریف ہے کہ وہ اپنے اصولی اور مبنی برحق مؤقف پر نہایت جرأت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اور موجودہ سیاسی انتشار کا تمام تر ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے رہے ہیں۔ ان کی جماعت نے شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیا اور پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار آصف زرداری کو بھی ووٹ نہیں دیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا سیاسی مؤقف ایک ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے درمیان جو شخصی ٹکرائو پایا جاتا تھا اس میں بھی کمی آئی ہے۔ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں‘ ان کا مولانا سے آمنا سامنا ممکن نہیں ہے۔ اگر ہوتا بھی تو موجودہ حالات میں مفاہمت کی صورت نکل سکتی تھی البتہ پی ٹی آئی کے دوسرے لیڈر مولانا کے ساتھ رابطے میں ہیں اور پختون روایات کے مطابق ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اگر اقتدار کی کشش نے حضرت مولانا کے قدموں میں ڈگمگاہٹ پیدا نہ کی تو وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر شہباز حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے خلاف ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے اس نے قدم قدم پر پی ٹی آئی کو زک پہنچانے اور اسے الیکشن سے آئوٹ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا اور پی ٹی آئی تمام تر دھاندلی کے باوجود قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہے۔ اگر اس نے قومی اسمبلی کو مچھلی منڈی بنانے کے بجائے اس کی کارروائی میں سنجیدگی سے حصہ لیا‘ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کے بلاول کے مطالبے کی حمایت کی اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف قانونی جنگ لڑی تو وہ شہباز حکومت کے خلاف متعدد اسکور کرسکتی ہے۔

اب آئیے کچھ باتیں میاں نواز شریف کے بارے میں بھی کہ الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات کی یہ بارات ان کے لیے ہی سجائی تھی۔ انہیں لندن سے دولہا بنا کر پاکستان لایا گیا تھا اور خیال یہی تھا کہ حکومت کو بطور دلہن ان کے نکاح میں دے کر پروٹوکول کے ساتھ جاتی امراء سے اسلام آباد رخصت کیا جائے گا۔ جرنیلوں نے انہیں سلامی دینے کا بھی پکا ارادہ کر لیا تھا۔ لیکن برا ہو ووٹوں کے سونامی کا جو یہ سارے انتظامات بہا کر لے گیا۔ میاں صاحب نے دو حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ وہ دونوں حلقوں سے عملاً ہار گئے۔ مانسہرہ سے تو ان کی شکست کا سرکاری طور پر اعلان کر دیا گیا البتہ لاہور کے حلقے سے انہیں مصنوعی طور پر جتوا دیا گیا تاکہ اگر وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ پائوں تلے روند کر چوتھی بار وزیراعظم بننے پر مصر ہوں تو ان کی یہ حسرت پوری کر دی جائے۔ لیکن میاں صاحب تو لندن سے ’’چپڑی اور دودو‘‘ کی خواہش لے کر پاکستان آئے تھے یعنی وہ خود وزیراعظم اور اپنی دختر نیک اختر کو پنجاب میں وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ ہمارے دوست ممتاز صحافی ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ لاکھ ان کی حمایتی سہی لیکن وہ اس پر آمادہ نہ ہوئی اور ان سے کہا گیا کہ یہ دونوں عہدے آپ کو نہیں دیے جا سکتے۔ آپ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو مریم پنجاب میں وزیراعلیٰ نہیں بن سکتیں۔ اگر آپ مریم کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو وزارتِ عظمیٰ چھوڑنی پڑے گی۔ میاں نواز شریف مریم کو اپنا جانشین بنانے کا فیصلہ تو بہت پہلے کر چکے تھے اس لیے انہوں نے مریم کے لیے اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔ ویسے بھی میاں صاحب کو ایک بے اختیار وزیراعظم بننے میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ انہیں صاف بتا دیا گیا تھا کہ جن جرنیلوں اور ججوں نے انہیں اقتدار سے نکالا تھا‘ وہ ان کا احتساب نہیں کرسکتے۔

اب شہباز حکومت کی طرف آتے ہیں جسے ’’پی ڈی ایم حکومت کا نیا دور‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ شہباز شریف اپنے برادر گرامی کی طرح طویل عرصے سے اقتدار کے مزے لیتے رہے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہیں کیا جب کہ ان کے برادرِ محترم میں اتنی قوتِ برداشت نہیں ہے۔ وہ اقتدار ملتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی آنکھیں دکھانے لگتے ہیں جس کا نقصان انہی کو ہوتا ہے اور بہت بے آبرو ہو کر کوچۂ اقتدار سے نکلنا پڑتا ہے۔ جب کہ شہباز شریف ایسی کوئی نوبت نہیں آنے دیتے۔ انہوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم کی کامیابی کے بعد پی ڈی ایم کے پرچم تلے حکومت سنبھالی تھی۔ یہ اپوزیشن جماعتوں کا وہ اتحاد تھا جو عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بالآخر اسے کامیابی ہوئی اور اقتدار عمران خان کے ہاتھ سے نکل کر اس کے ہاتھ آگیا۔ پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن تھی جس کی صدارت شہباز شریف کے پاس تھی چنانچہ ان کی لاٹری نکل آئی اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ اس عہدے پر پہنچنے کی وہ دیرینہ خواہش رکھتے تھے لیکن بڑے بھائی ان کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے تھے‘ بڑے بھائی کی نااہلی کے بعد یہ رکاوٹ دور ہو گئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی اپنی مشہور زمانہ ’’شہباز اسپیڈ‘‘ سے کام شروع کردیا۔ ان کا سب سے پہلا ٹارگٹ اپنے اور اپنے بیٹوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرانا تھا اس میں انہیں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی پھر انہوں نے اپنے دوستوں اور پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو نوازنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس مفلوک الحال ملک میں کابینہ کے ارکان کی تعداد 86 تک پہنچا دی۔ جب اس پر اعتراض ہوا تو کہا کہ میری کابینہ تنخواہ نہیں لے گی لیکن اندر خانہ وزیروں اور مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیا گیا۔ مہنگائی تو خیر عمران خان کے زمانے میں بھی بہت تھی اور پی ڈی ایم اس کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی تھی۔ شہباز شریف آئے تو انہوں نے مہنگائی کو اس انتہا پر پہنچا دیا کہ عمران خان کا زمانہ سستا لگنے لگا۔ ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا لیکن شہباز شریف کی شاہ خرچی پر کوئی منفی اثر نہ پڑا۔ شاہِ برطانیہ کی رسم تاج پوشی میں شرکت کے لیے لندن گئے تو اکیلے جانے کے بجائے پی آئی اے کا جہاز چارٹر کرکے پورے خاندان اور ملازمین کو ہمراہ لے گئے جو ایک ہفتے تک لندن کی سیر کرتا رہا اور جہاز ہیتھرو ائرپورٹ پر کھڑا رہا جس کا کرایہ ہی لاکھوں پونڈ بن گیا۔

شہباز شریف سمجھتے تھے کہ ان کے وزیراعظم بننے کا یہ آخری موقع ہے‘ انہیں دوبارہ یہ موقع نہیں ملے گا لیکن قدرت نے انہیں دوسری بار یہ موقع دے دیا ہے۔ اب دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم ایف حکومت کا یہ نیا دور بھی یادگار ثابت ہوگا۔

اب آخر میں آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ جس میں کہا گیا ہے کہ فوج کا انتخابات کے عمل سے کوئی تعلق نہ تھا اس نے صرف سیکورٹی فراہم کی تھی۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ ایسا لطیفہ ہے جس پر منہ تو بسوارا جا سکتا ہے‘ ہنسنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایم کیو ایم والے تو اس پر جی کھول کر ہنسنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ ہنسے تو کہیں ان کی جھولی میں پڑی ہوئی سیٹیں یوں غائب نہ ہو جائیں جیسے پرندے پتھر سے اُڑ جاتے ہیں۔