جنگلی حیات کا تحفظ بہت ضروری ہے۔ اور جنگلوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ انسانیت کی فلاح کے لیے قدرتی ماحول کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ بہت سے ادارے سر گرم ہیں کہ سماٹرا کے جنگلات کا تحفظ کیا جائے کیونکہ ان جنگلات میں معدوم ہوتی ہوئی سماٹرا کے ہاتھیوں کی نسل کے کچھ جانور بچ گئے ہیں اور چونکہ یہ میدانی جنگل ہے اس لیے یہ ہاتھی یہاں سے پہاڑی علاقوں میں منتقل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح یہ جنگلات کرۂ ارض کی بقا کے لیے بھی ضروری ہیں۔ ان تنظیموں کو کرۂ ارض کی فکر ہے۔ جنگلات کی فکر ہے ہاتھیوں کی فکر ہے۔ ان جنگلوں میں موجود بندروں کی فکر ہے اس کے لیے فنڈنگ کی جا رہی ہے ان میں ایک اہم بندر اورنگوتان بھی ہے جو کسی زمانے میں انڈونیشیا کے جنگلات میں دو لاکھ تیس ہزار سے زاید تھے اب ایک لاکھ چار ہزار کے لگ بھگ رہ گئے ہیں۔ اس کام پر بڑی ریسرچ ہو رہی ہے ویڈیو بنائی جا رہی ہیں۔ تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ لاکھوں ڈالر ایک ایک این جی او خرچ کر رہی ہے۔ لیکن فکر نہیں ہے تو غزہ کی، فلسطینی مسلمانوں کی، اسرائیلی درندگی کی اور اس کے سر پرسرت ممالک کی۔ جو کرہ ارض سے انسانوں کو مٹانے کے در پے ہیں۔ کھربوں ڈالر کے بم اور بارود سے نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر دنیا کا حال دیکھنا ہے کہ وہ کر کیا رہی ہے تو دو الگ الگ سمتوں میں کام ہو رہا ہے۔ عوام فلسطینیوں کے حق کی بات کر رہے ہیں اب تو مغربی ممالک کے عوام بھی اسرائیل کو قابض جارح اور بد معاش ریاست قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ان ریاستوں کے حکمراں کیا کر رہے ہیں وہ تو ہر طریقے سے اسرائیل کی حمایت ہی نہیں مدد کرنے میں مصروف ہیں۔
اب یہ بات کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ اسرائیل کا قیام کیسے عمل میں آیا اور وہ 75 برس سے کیا مظالم کر رہا ہے۔ انسانی بستیوں کو تباہ کر کے وہاں قبضہ کر رہا ہے اور یہودی بستیاں بنا رہا ہے۔ دنیا کا ہر ادارہ کھل کر اس کی مدد کر رہا ہے۔ صرف عوام ہیں جو دوسری جانب ہیں۔
اسرائیل کے خلاف ان دو صفوں میں حکمران بہت طاقتور ہیں اور عوام اپنے اتحاد کے ذریعے اور احتجاج کے ذریعے انہیں کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اب بھی فکری طور پر امت مسلمہ میں ابہام پھیلایا جا رہا ہے۔ جوں جوں فلسطینیوں کی ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں یہ لوگ حماس کے بارے میں ابہام کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہہ ڈالا کہ حماس کو اسلام کا پتا ہے نہ انسانیت کا حالانکہ درندگی اسرائیل کر رہا ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، مسجدوں، خیمہ بستیوں کو وہ تباہ کر رہا ہے۔ ہفتوں سے بھوکے فلسطینیوں کو خوراک کے حصول کی لائن میں نشانہ بنا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کر کے انہیں بے دخل کر رہا ہے اور حماس نے ایک مرتبہ مزاحمت کیا کر دی ساری غلطی اسی کی ہے۔ یہ اسلام بیزار لوگ اس سے تو اب تک انکار نہیں کر سکے کہ اسرائیل کے تسلط سے قبل فلسطین ایک ریاست تھی پھر خلافت کے خاتمے کے بعد اردن کی سلطنت کے ذریعے اس کا نظام چلایا جاتا تھا۔ بندر بانٹ کے بعد اسے برطانیہ کے زیر انتظام بھی رکھا گیا، یہ لوگ اس کے بعد کے حالات کا بھی جائزہ لے لیں۔ صرف اس چیز سے اندازہ لگائیں کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے لیے صہیونیوں نے فلسطینیوں کی 42لاکھ 44ہزار 772 ایکڑ زمین پر قبضہ کیا۔ اور اس مقصد کے لیے 530 فلسطینی آبادیوں کو اجاڑ دیا۔ جس میں 400 شہر مکمل تباہ کیے گئے۔ صرف 1948 ء میں 13 ہزار فلسطینی شہید کیے گئے اس وقت حماس، الفتح یا پی ایل او کوئی بھی نہیں تھا اور کسی نے کوئی ایڈونچر نہیں کیا تھا۔ صہیونیوں نے ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو بے گھر کیا۔ یہ نسلی تطہیر کا آغاز تھا۔
1988ء میں پہلی انتفاضہ کے وقت اسرائیلیوں کو ہلکی پھلکی ٹکر لگی اور پہلی انتفاضہ کے بعد اوسلو معاہدہ کرنا پڑا جبکہ وہ پورے فلسطین کا دعویدار تھا۔ اس کے بعد فلسطینیوں نے مزاحمت میں زندگی پالی اور اسرائیلیوں کو جواب بھی ملنے لگا۔ اسرائیلی فوج نے 2000ء سے 2023ء تک دس ہزار 721 فلسطینی شہید کیے تو اس کے بھی 1330 فوجی مارے گئے۔ انتفاضہ اوّل و دوم کے وقت وہ دانشور نہیں تھے جو آج پوچھ رہے ہیں کہ مزاحمت سے کیا ہوا۔ فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی فلسطینیوں کی حکومت بنی کم از کم ان کی اقوام متحدہ میں آواز پہنچنے لگی۔ اگرچہ سارا انتظام کیا جاتا ہے کہ کوئی حقیقی نمائندہ فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ نہ بن جائے اب ایک بار پھر حماس نے اسرائیلیوں کو ناکوں چنے چبوادینے۔ اور پہلی مرتبہ اسرائیل اقوام متحدہ سے دہائی دینے کے لیے پہنچ گیا کہ اس کے قیدی رہا کروائے جائیں۔ دنیا کی سب سے مضبوط فوج، دنیا کا سب سے بڑا فوجی جارح ملک امریکا اس کی پشت پر، دنیا بھر کا سازشی برطانیہ اس کا دست راست اور تمام معاشی طاقتیں اسرائیل کے ساتھ اور وہ اپنے قیدیوں کو چھڑا نہیں سکا۔ چھڑانا تو درکنار تلاش نہیں کرسکا۔ اسے اقوام متحدہ یاد آگئی۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ حماس کو کیا پتا اس کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ فلسطینی 1948ء سے مر رہے ہیں۔ ان کی زمینیں اس وقت سے چھینی جارہی ہیں اور ہمارے کچھ دانشور جانوروں اور جنگلوں کے تحفظ کے لیے متفکر ہیں۔ اب کینیا اور تنزانیہ کے ماسائی قبائل کی بھی فکر کی جارہی ہے ان کے بارے میں فکر یہ ہے کہ 70 ہزار لوگوں کے لیے خوراک کے حصول کے لیے زمین تنگ ہے۔ ان کے مویشی خطرے میں رہتے ہیں ان کو تنزانیہ سے نکالا جارہا ہے جس سے مزید پریشانی ہوگئی ہے۔
حیرت ہے، افسوس ہے، ڈوب مرنے کا مقام ہے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کیا جارہا ہے ان کے پاس مویشی بھی نہیں بچے بلکہ وہ خود مویشیوں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ 70 ہزار ماسائی قبائل کی فکر سے ان کے مویشیوں کے لیے زمین تنگ ہے اور فلسطینی انسانوں کے لیے زمین تنگ ہوتی نظر نہیں آرہی۔ فلسطینیوں کا قتل عام 1948ء سے جاری ہے ان کی زمینیں اسی وقت سے چھینی جارہی ہیں ان کو اپنے گھر سے نکالا جارہا ہے۔ صرف مزاحمت پر اتنا طوفان کیوں۔۔۔ ابھی تو اور طوفان آئیں گے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو حکومتیں بنانے اور گرانے سے فرصت نہیں، اپنا ملک بار بار فتح کیا جاتا ہے اور اب جو حکومت بنائی، اس کو چلانا اور بچانا بھی ایک مشکل ہے۔ ان کے لیے تنزانیہ کے جنگل اور کینیا کے ماسائی قبیلے کو بچانے سے بھی زیادہ اہم الیکشن انجینئرنگ ہے۔