اللہ کے لیے

453

خود کو بگاڑ لینایا سنوار لینا آدمی کے اپنے ہاتھ میں ہے اور اس معاملے میں پہلی چیز احساس ہے کہ وہ کسی بات کو کس طرح محسوس کرتا ہے‘ اگر وہ برائی کو برائی نہیں جانتا بلکہ اچھائی سمجھتا ہے اور اس کے برعکس اچھائی کو برائی کہتا ہے تو بھلا کس طرح برائی سے بچنے کی کوشش کرے گا وہ تو اسی کو دل سے لگائے رکھے گا۔ یہاں تک کہ اسے اس کے نقصان و ضرر کا تجربہ ہو جائے اور وہ اس تجربے کے بعد ہی برائی سے نفرت کرے گا۔ چھوٹا بچہّ آگ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ یہ کوئی دل بہلانے والی چیز ہے۔ مگر جب ایک بار ہاتھ جل اٹھتا ہے، تو پھر وہ آگ کو دیکھ کر ہی سہم جاتا ہے یہی حال اچھائی اور برائی کا ہے کہ پہلی چیز نیک و بد کا احساس ہے کہ آدمی برائی سے نفرت رکھے اور اچھائی کا خواہش مند رہے۔

جب تک دل میں اچھائیوں اور سچائیوں کی خواہش اور طلب نہیں پیدا ہوتی۔ اس وقت تک عمل نہ نیک ہوتا ہے اور نہ ہی سچا اور اچھا ہوتا ہے۔ لوگ بہت سی نیکیاں محض اس لیے نہیں کرتے کہ نیکیوں سے سچی محبت ہوتی ہے بلکہ انہیں بعض نیکیوں کی عادت سی ہو جاتی ہے کہ بغیر کیے رہا نہیں جاتا۔ بعض ماحول اور معاشرے کے زیر اثر نیک کام کرتے ہیں کہ نہ کریں تو سب میں انگشت نمائی ہونے لگے اور بعض وقت بھلے کام محض نام و نمود کی خاطر یا شخصیت کا اعتبار قائم کرنے کے لیے ہو جاتے ہیں ایسے تمام بھلے کاموں اور نیکیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل بے پایاں کے سبب قبول فرمالیں تو فرمالیں وگرنہ وہ آخرت کے لائق نہیں سمجھے جائیں گے۔ اور ان میں خاص طور سے نام و نمود اور دکھاوے کے کام تو بالکل ہی ٹھکرادیے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کو ریا کاری اور خودنمائی قطعاً گوارا نہیں۔

دراصل نیکی وہ نہیں ہے جسے عام طور پر نیکی سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے بلکہ نیکی وہ نیت و ارادہ ہے جس کے تحت آدمی نیکی کا کام سرانجام دیتا ہے، نیکی در اصل نیک ارادے کا نام ہے اور اس ارادہ کے تحت جو کام کیا جاتا ہے وہ بذاتِ خود نیکی نہیں بلکہ نیکی والا کام یعنی نیک کام ہے۔ کوئی شخص نماز پڑھے، مگر اس نے دل میں یہ طے کر رکھا ہو کہ میں نماز اللہ کے لیے نہیں پڑھوں گا تو باوجود اس کے کہ وہ نماز کے پورے ارکان ادا کرے اور بڑی خوش الحالی سے نمازمیں کلام پاک کی تلاوت کرے‘ نماز نہ ہوگی۔ اس کے برعکس ایک شخص کو نماز پڑھنی نہ آتی ہو، سورتیں بھی یاد نہ ہوں، مگر دل میں بڑے خلوص اور بڑے پیار سے اس نے یہ ارادہ کر لیا ہو کہ میں اپنے ربّ کی نماز پڑھوںگا، وہ بے طریقہ کھڑا ہوگیا، ہاتھ بھی ٹھیک سے نہیں باندھے صرف اللہ اللہ کرتا رہا‘ نہ رکوع طریقہ سے کیا نہ سجدہ ساری نماز بس ایسے ہی الٹی سیدھی ادا کرلی اور سلام پھیر دیا مگر اس کی ساری نماز اللہ کے پاس قبول ہوگئی‘ دونوں نے نماز پڑھی‘ دونوں نے نیک کام کیا کیونکہ دونوں کو نماز پڑھتا دیکھ کر لوگ یہی کہیں گے کہ دونوں نیک کام میں مشغول ہیں‘ مگر در حقیقت اس خدا بیزار کی نماز جو بظاہر ایک نیک کام ہے نیکی نہیں ٹھیرے گی بلکہ وہ تو ایک وبال جان بن جائے گی، تو اصل نیکی ارادہ اور نیت کی ہوتی ہے اور کسی نیک کام کے نیک ٹھیرنے کا دارو مدار بھی اسی نیت پر ہوتا ہے۔

روزہ بھی اسی وقت عملِ نیک ٹھیرے گا، بلکہ روزہ رکھنے روزہ کی نیت دراصل بندگی ٔ اللہ کے احساس کو تازہ کردیتی ہے۔ اور اس کی اطاعت کے ارادے کو مستحکم کردیتی ہے۔ اب اس کا ارادہ کرلینے اور زبان سے اقرار کرلینے کے بعد روزہ کے دوران یہی جذبہ اور یہی احساس تازہ رہے تو بلاشبہ روزہ خیر و برکت بن جاتا ہے، اور ایک اچھے کردار کے بنانے میں وہ مددگار بن جاتا ہے۔ اصل نیکی روزے کی نیت ہے جو دن بھر کے فاقہ کو لائق اجر عبادت بنا دیتی ہے، روزہ رکھنے والے اسے اللہ کی خاطر، اللہ کی محبت میں، اللہ کے خوف سے اور اللہ کے شکرانہ میں رکھیں۔ اسی لیے اسلام کی تمام عبادتوں میں نیت کی بڑی اہمیت ہے اور روزہ میں بھی نیت کرنی ہوتی ہے۔

اللہ موجود ہے، اللہ ہمارا ہے، ہم اللہ کے ہیں، ہم اللہ کے وفادار ہیں، ہم اس کے اطاعت گزار ہیں، ہم اس کے لیے آج دن بھر بھوکے پیاسے رہنا چاہتے ہیں۔