زکوٰۃ ارکان اسلام میں سے تیسرا رکن ہے۔ یہ مالی عبادت ہے۔ زکوٰۃ اصلاً صاحب حیثیت کے مال میں دوسروں کا حصہ یا حق ہے۔ زکوٰۃ کے لغوی معنی طہارت اور نشو و نما کے ہیں۔ زکوٰۃ نماز کی طرح کی عبادت نہیں ہے یعنی یہ ہر مسلمان پر فرض نہیں ہے۔ یہ صرف صاحب نصاب پر فرض ہے۔ زکوٰۃ کب فرض ہے۔ کس حساب سے ادا کرنی ہوتی ہے۔ کس کو دی جا سکتی ہے یا کون مستحق ہے۔ زکوٰۃ کا مقصد کیا ہے؟ یہ بھی بہت اہم سوالات ہیں لیکن آج کی تحریر کا اصل مقصد ایک اہم مغالطے کی وضاحت ہے۔
آج کل زیادہ تر لوگ زکوٰۃ رمضان المبارک میں ادا کرتے ہیں۔ حکومت نے بھی بینک کھاتوں سے زکوٰۃ کی کٹوتی کے لیے یکم رمضان کی تاریخ مقرر کی ہوئی ہے۔ اس لیے عام لوگوں کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ زکوٰۃ رمضان المبارک میں ادا کرنا ضروری ہے۔ گو کہ رمضان فضیلت والا مہینہ ہے۔ اس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی بہت فضیلت ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ شہر الصیام اور شہر نزول القرآن ہے۔ اس ماہ کی اصل عبادت روزے ہیں۔ اس ماہ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس میں ربّ کا آخری پیغام قرآن کریم نازل ہوا۔ ’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن‘‘ نیز روایات کے مطابق بابرکت ترین رات یعنی لیلۃ القدر بھی اسی مبارک مہینے میں آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ قرآن و حدیث میں کہیں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی رمضان کے مہینے میں کرنے کا حکم نہیں آیا۔ شرعاً زکوٰۃ کی ادائیگی کا رمضان المبارک میں لازم نہیں ہے۔ دیگر عبادات کی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کی بھی متعین شرائط ہیں۔ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے بندے کا مسلم، عاقل، بالغ اور آزاد ہونا شرط ہے۔ لیکن زکوٰۃ ہر عاقل، بالغ، آزاد، مسلم پر نہیں بلکہ صرف صاحب نصاب مسلم پر فرض ہے اور اس وقت فرض ہوتی ہے جب مال کی ملکیت پر ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔
اس مسئلے میں شریعت کے حکم کو جاننے کے لیے درج ذیل فتوی مددگار ہے: ’’زکوٰۃ کی ادائیگی رمضان میں بھی کی جاسکتی ہے اور رمضان کے علاوہ بھی، اور رمضان المبارک کی پہلی تاریخ میں ہی دینا ضروری نہیں ہے، پورے رمضان المبارک میں دی جاسکتی ہے، نیز رمضان میں ادائیگی کا ثواب زیادہ ہے۔ لیکن واضح رہے کہ زکوٰۃ واجب ہونے کا تعلق زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے سے ہے، نہ کہ رمضان المبارک سے۔ یعنی جس شخص کی ملکیت میں پہلی مرتبہ جس وقت نصاب کے برابر مال آئے، چاند کی تاریخ کے اعتبار سے اس کے ایک سال بعد اگر اس کے پاس نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مال موجود ہو تو زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی مہینہ ہو، لہٰذا حسابات میں اس کا لحاظ رکھنا چاہیے، البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کے باوجود رمضان المبارک میں ادائیگی کی جاسکتی ہے‘‘۔
(دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
مختصر یہ کہ علماء و مفتیان کرام کی تحقیق اور فتاویٰ کے مطابق جب زکوٰۃ واجب ہونے کا وقت اور مالی سال پورا ہو جائے تو صاحب نصاب پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔ اسے چاہیے کہ بلا تاخیر زکوٰۃ ادا کردے، اسے رمضان تک مؤخر کرنا درست نہیں ہے۔ زکوٰۃ کا مالی سال اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں پورا ہو رہا ہے، تو وہ رمضان تک زکوٰۃ کی ادائیگی مؤخر نہ کرے۔ اور اگر سال رمضان میں پورا ہو رہا ہے تو پھر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرے۔ علماء کی رائے میں سال پورا ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنے میں حرج نہیں ہے۔
صدقہ فطر: صدقہ فطر کا تعلق تو ہے ہی رمضان المبارک یا عید رمضان سے اس لیے اس سے متعلق ہدایات بھی جاننا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں چند احادیث دیکھیے۔
’’نبی کریمؐ نے آزاد، غلام، مرد، عورت اور ہر چھوٹے بڑے مسلمان پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقۃُ الفطر ادا کرنا فرض کیا ہے، اور اسے لوگوں کے (عید کی) نماز کی طرف جانے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا ہے‘‘۔
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے: ’’آپؐ نے روزہ دار کے روزہ کو بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء و مساکین کی خوراک مہیا کرنے کے لیے صدقۃُ الفطر فرض کیا ہے، جو شخص نماز سے پہلے یہ صدقہ ادا کرے، اس کا صدقہ قبول ہے (اس کے لیے یہ دونوں مقصد حاصل ہو جاتے ہیں) اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرے، تو (صدقۃُ الفطر ادا نہ ہو گا بلکہ) یہ دوسرے نفلی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے‘‘۔ (ابو داود، ابن ماجہ)
عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔ (سنن ابی داود)
دار العلوم دیو بند کے فتوے کے مطابق صدقہ فطر عید کے دن جس وقت فجر کا وقت ہوتا ہے اسی وقت یہ صدقہ واجب ہوتا ہے۔ وقت الوجوب بعد طلوع الفجر الثانی من یوم الفطر۔ بہتر یہ ہے کہ جس وقت لوگ نماز کے لیے عیدگاہ جاتے ہیں اس سے پہلے ہی صدقہ فطر ادا کردیا جائے، اگر کسی نے عید کے دن سے پہلے رمضان ہی میں ادا کردیا تب بھی درست ہے، عورتوں کو فقط اپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے، اور مرد پر اپنی اور اپنے نابالغ اولاد کی طرف سے دینا واجب ہے، لیکن اگر اولاد مالدار ہو تو باپ کے ذمہ اپنے مال سے واجب نہیں بلکہ انہیں کے مال سے ادا کردے، اور بالغ اولاد کی طرف سے باپ کو دینا واجب نہیں، البتہ اگر کوئی لڑکا مجنون ہو تو اس کی طرف سے بھی ادا کردے۔