رمضان کے روزے،اللہ کے لیے

443

روزہ قرب خدا وندی کا ذریعہ ہے، اللہ سے ایک قرب تو یہ ہے کہ وہ خالق ہے اور اپنی خلق کردہ اشیاء کے بارے میں پورا پورا علم رکھتا ہے اپنی مخلوق کے ماضی، حال اور مستقبل سے خوب واقف، ان کی فطرت ان کی کارکردگی ان کی تمام حرکات و سکنات کو خوب جانتا ہے چونکہ سب کچھ اس کے علم میں ہے اس لیے وہ اپنی خلق کے قریب ہے تو یہ قرب ہر شے اور ہر فرد کے ساتھ یکساں ہے اس میں کوئی امتیاز نہیں۔
ایک قرب اور ہے جسے اہل بصیرت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم زندہ ہیں اس لیے کہ ہم میں جان ہے، روح ہے۔ مگر یہ روح ہمارے اندر خودبخود نہیں پیدا ہوگئی، بلکہ ایک ذریعہ سے آتی ہے، اور وہ ذریعہ ذات خداوندی ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمارے اندر جان ڈالی ہے اس لیے ہمارے اور ہماری جان کے درمیان اگر کوئی ہے تو اللہ ہی ہے، اس طرح اللہ ہماری جان سے زیادہ ہم سے قریب ہے۔ اگر اس بات کو الٹ کر کہا جائے تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہم سے زیادہ قریب ہے، اس طرح وہ ہم سے بھی قریب ہے، اور ہماری جان سے بھی قریب ہے۔ ظاہر ہے کہ دو چیزوں کے درمیان جو واسطہ اور ذریعہ ہوتا ہے، وہی دونوں چیزوں سے قریب ہوتا ہے، اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:-’’ہم شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘۔
یعنی شہ رگ جتنی ہم سے قریب ہے اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ ہم سے قریب ہیں کیونکہ شہ رگ اور ہمارے وجود کے درمیان وہی واسطہ اور ذریعہ ہیں۔
یہ دونوں قرب اللہ کے علم و تخلیق کے اعتبار سے ہیں، مگر ایک اور قرب بھی اللہ اور بندے کے درمیان ہوتا ہے، اس کو یوں سمجھیے کہ ایک گھر میں دو بھائی رہتے ہیں، دونوں ایک دوسرے سے قریب ہیں، مگر ان دونوں میں ناچاقی ہے، دل پھٹّے ہوئے ہیں، ایک کی صورت ایک دیکھنے کا روادار نہیں۔ ایک کسی بات کو پسند کرتا ہے، دوسرا کسی کو، دونوں کے ذوق مزاج خواہش اور نظریات میں بڑا فرق ہے، ظاہر ہے ان دونوں کو کون قریب کہے گا۔ اگرچہ کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اب دوسرا رُخ دیکھیے ان دونوں کا ایک ایک دوست بھی ہے اور وہ دونوں اپنے اپنے دوست کے بڑے ہم خیال ہم مذاق اور ہم رنگ ہیں آپس میں ان کی بڑی محبت اور تعلق ہے ایسا خلوص ہے کہ ایک دوسرے کی خاطر جان قربان کردیں۔ اگرچہ ان کے دوست ان کے ساتھ نہیں رہتے دور رہتے ہیں مگر ان کو دیکھ کر ہر شخص یہی کہتا ہے دونوں بھائی جتنے ایک دوسرے سے دور ہیں اپنے اپنے دوست سے اتنے ہی زیادہ قریب ہیں تو ایک قرب یہ ہوا کہ غیر قریب ہوجاتے ہیں اور اپنے دور۔
اس قرب کے لیے بنیادی شرط چاہت کی ہے۔ جس کو آدمی چاہتا ہے، اس کا ہوجاتا، یا اس کو اپنا بنا لیتا ہے، اس کا ہوجانے کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ خود میں وہ اوصاف پیدا کیے جائیں، جو اس کو پسند ہوں، وضع قطع، رفتار و گفتار، چال ڈھال، رہن سہن، سوچ بچار غرض ہر بات، ہر عمل میں وہ اس کی پسند کے مطابق ہو کہ وہ دیکھے تو نظر تحسین سے دیکھے، اپنا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا بن جائے اور اسی کا بن کر رہے، خود کو اس کی چاہت میں گم کردے اس طرح کہ اپنی خود کوئی خواہش نہ ہو اور اگر خواہش ہو تو وہی ہو جو اس کی رضا ہو، اپنی کوئی رائے نہ ہو، اپنی پسند و ناپسند نہ ہو، رائے اس کی ہو اور پسند و ناپسند اسی کی ہو اور وہی دل سے قبول ہو اور خود کو بس اسی پر چھوڑ دے چاہت میں یہ سب کچھ دشوار نہیں ہوتا۔ دنیا کی چاہت میں بھی یہی رنگ نظر آتا ہے بس یہی معاملہ قُرب الٰہی کا ہے کہ بندہ خود کو اللہ کی پسند، مرضی، رائے، ہدایت، حکم اور قانون پر چھوڑدے ہر پہلو سے اس کا ہوجائے
اور اسی کا بن کررہے۔
جن کو اللہ نے ریاضت و عبادت اور اعمال حسنہ کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کردیے تو وہ قرب خداوندی سے فیضاب ہوئے اور وہ جن کے ذمے اللہ نے دوسروں کے حقوق بھی لگا دیے ہیں، اور ان پر خلق خدا کے فرائض بھی عائد ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ سہولت اور موقع نہیں رہتا کہ رات رات بھر عبادت کریں، دن دن بھر نفس کشی کے لیے ریاضتوں میں مصروف رہیں، اب بغیر ریاضت و محنت کے کس طرح وہ اللہ کا قرب حاصل کریں، جب کہ وہ اس کے آرزو مند بھی ہوں کہ توجہ کامل نہیں تو نظر خوش کن ہی غنیمت ہے، مگر وہ ملے کیسے؟
اس مشکل کو ماہ رمضان کے روزے حل کردیتے ہیں کیونکہ روزہ رکھنے والا اگر سچے دل سے روزہ رکھتا ہے اور اس ارادے اور نیت سے کہ میں اللہ کے لیے روزہ رکھتا ہوں۔ تو اللہ اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور جب وہ دن بھر اللہ کی خاطر کھانے پینے کے اختیار سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ اپنی خواہش اور پسند کو اللہ کی منشاء و مرضی کے سامنے ترک کردیتا ہے تو اللہ اس سے خوش ہوجاتا ہے، اس سے راضی ہوجاتا ہے اور اسے بے حد و حساب اجردیتا ہے اور سب سے بڑا اجر یہی ہوتا ہے کہ وہ اس کے دل میں اپنی چاہت کو بڑھا دیتا ہے، اس طرح روزہ قُرب خداوندی کا ایک موثر ذریعہ ہے جو خواص کو اعلیٰ مدارج پر پہنچاتا اور عوام کو حُبّ الٰہی سے مالامال کردیتا ہے۔