متنازع قومی انتخابات کے بعد بننے والی حکومتوں کو چلانے اور باہم کھینچا تانی سے بچنے کے لیے کے پی کے وزیراعلیٰ گنڈاپور کو بلیک میل کرکے مرکزی حکومت کے در پر پہنچادیا گیا۔ کے پی حکومت کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی نااہلی کی درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد علی امین وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے۔ سخت قسم کی تقریریں کرنے والے سخت گیر رہنما نے اچانک رویہ تبدیل کرلیا۔ اس ملاقات کو خوشگوار قرار دیا جارہا ہے۔ یہ ملاقات یقیناً مسلم لیگ ن کے لیے خوشگوار ہوگی لیکن پی ٹی آئی کے سخت گیر حلقوں میں اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔ گنڈاپور کا کہنا ہے کہ شہباز شریف سے ملاقات مثبت رہی۔ واضح رہے کہ چند روز قبل وزیراعظم کے گورنر ہائوس پہنچنے پر وزیراعلیٰ پروٹوکول کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملاقات کے لیے نہیں پہنچے تھے اوروفاق کو مطلع کیے بغیر چیف سیکریٹری پختونخوا کو فارغ کردیا تھا۔ اب اس امر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی یہ انتظام کیا گیا تھا۔ گنڈاپور عموماً وفاقی حکومت اور مخالفین کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کے خلاف درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ۷۳۰ کنال اراضی گنڈاپور کے نام عارضی طور پر مستقل کی گئی تھی۔ ۲۰۲۰ کے اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق گنڈاپور نے لینڈ کروزر گاڑی اسی زمین کو بیچ کر خریدی تھی۔ درخواست کی سماعت ۲۶ مارچ کو مقرر ہوئی ہے اگر یہ الزامات درست ثابت ہوئے تو علی امین گنڈاپور کو وزارت علیا سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اب یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ شہباز شریف میں وفاق کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ہو یا نہیں ملک کے مقتدر اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں یہ جادو ہے کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو کس طرح قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر تو گنڈاپور نے یہی کہا ہے کہ میں نے صوبے کے واجبات چیف سیکریٹری کی تعیناتی لوڈشیڈنگ اور عمران خان سے ملاقات کے معاملات اٹھائے ہیں۔ ظاہر ہے اگر وہ یہ بیان نہ دیتے تو ان کی پوزیشن اپنی پارٹی میں خراب ہوجاتی لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ گنڈاپور کے سر پر نااہلی کی درخواست کی تلوار لٹکاکر انہیں کنٹرول کیا جائے گا اور کنٹرول سے باہر ہونے پر ان کے خلاف فیصلہ دے دیا جائے گا۔