اے ابن آدم ہمارا معاشرہ تو مغرب نے تباہ کر ہی دیا ہے مگر ہم جیسے دانشور، قلم کاروں کا فرض ہے کہ ہم معاشرے سے غلط قسم کی چیزوں کو نکال کر باہر پھینک دیں، ہم نے شادی جیسی تقریب کو بھی درد سر بنا دیا ہے، نکاح اسلام میں جتنا آسان ہے ہم نے اُس کو اتنا ہی مشکل بنا کر رکھ دیا۔ اس پر بات کرنے سے پہلے آپ سب سے انسانیت کے نام پر ایک اپیل کرنی ہے، جب ہم لوگ کسی بھی شادی کی تقریب میں جاتے ہیں تو ایک پیسوں کا لفافہ اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں اور جس کی شادی ہو اس کو دے دیتے ہیں پھر جب آپ کے گھر شادی ہوتی ہے تو اس کا بدلہ آپ کو واپس مل جاتا ہے۔ لیکن جب آپ کا کوئی اپنا اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوتا ہے ہم صرف اسی کو دیکھنے جاتے ہیں اس وقت مریض کے گھر والوں کو پیسے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، گھر والے ادھار یا قرض لے کر مریض کا علاج کرواتے ہیں اگر ہم ایک مناسب رقم لفافے میں رکھ کر اس کے گھر والوں یا اس کو دے دیں تو اس سے بڑی عبادت اور کیا ہوگی۔ مجھے یاد ہے NTC میں میرا ایک نائب قاصد بیمار ہوگیا، میرے ایک افسر میجر عاصم جیلانی اور آفس کا اسٹاف اس نائب قاصد کو دیکھنے اسپتال آئے ہم نے ان کی خیریت دریافت کی میں نے اپنی اوقات کے حساب سے کچھ پیسے ان کی جیب میں ڈال دیے پھر میجر (ر) عاصم جیلانی سمیت تمام لوگوں نے میرے اس عمل کی تقلید کرتے ہوئے اس نائب قاصد کی جیب میں پیسے ڈالے۔ کچھ دن کے بعد جب وہ دفتر واپس آیا تو مجھے بے حساب دعائیں دیتا رہا اس نے بتایا میرے 20 ہزار خرچ ہوئے اور آپ لوگوں نے مجھے 25 ہزار آکر دیے، یہ کوئی بڑا کارنامہ یا بڑی بات نہیں ہے۔ یہ بات صرف تقلید کے لیے لکھ رہا ہوں کاش کچھ لوگوں کے دل میں میری بات اُتر جائے۔
اب رمضان کی آمد ہے زکوٰۃ فرض ہے ضرور ادا کریں مگر نام و نمود کے لیے نہیں پہلے اپنے عزیز یا رشتے دار پھر اہل محلہ اگر وہ زکوٰۃ کے مستحق ہیں تو ان کو دیں پھر الخدمت جو کہ جماعت اسلامی کا ذیلی ادارہ ہے جہاں ایمانداری کے ساتھ آپ کی زکوٰۃ کو غریبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایدھی، سیلانی، چھیپا بھی انسانیت کی خدمت کا کام کررہے ہیں اور دیگر فلاحی اور مذہبی اداروں کی بھی مدد کریں اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے رابطہ کریں میں آپ کو سفید پوش لوگوں کا پتا بتادوں گا، آپ کی زکوٰۃ ملک کے غریبوں کی تقدیر بدل سکتی ہے، ہمارے ملک میں کئی سو ارب زکوٰۃ کی مد میں نکالی جاتی ہے ہمارے سماجی بھائی ظفر عباس نے کروڑوں روپے عوام کو سحری اور افطار کھلانے میں لگادیے۔ کاش اس پیسے سے 2 یا 3 فیکٹری بنالی جاتیں تو بے روزگاری کم ہوتی۔
1987ء کی بات ہے، ایم کیو ایم کا کراچی پر راج چلتا تھا الطاف حسین کی ایک آواز پر لاکھوں کا مجمع خاموش ہوجاتا آپ کی آواز پر کراچی اور حیدر آباد بند ہوجاتے تھے۔ 1988ء میں میری الطاف حسین سے ملاقات ہوئی چندا اور بھتا دل کھول کر عوام سے لیا جاتا میں نے الطاف حسین صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ کو کروڑوں روپے ملتے ہیں ہر ماہ اگر آپ ایک فیکٹری کی بنیاد ڈالیں گے تو 2 سے 3 سال میں کراچی کا کوئی نوجوان بے روزگار نہیں رہے گا مگر اس وقت الطاف حسین بادشاہ بنے ہوئے تھے اقتدار کی لالچ نے ان کا طرز زندگی بدل دیا تھا موٹر سائیکل سے پراڈو پر آگئے تھے کئی جانثار نوجوان ہر وقت ان کی سیکورٹی کا کام سرانجام دیتے تھے۔ پر ایک وقت ایسا آیا کہ کلرک، نائب قاصد کی نوکری مہاجر نوجوانوں کا مقدر بن گئی۔ حد تو یہ ہے کہ مالی کی نوکری پر بھی خوش ہوتے جبکہ سندھی بھائی بڑی بڑی پوسٹوں پر آکر بیٹھ گئے۔
خیر بات ہورہی تھی خدمت کی تو خدمت خلق کے نام سے ایم کیو ایم نے بھی کام کیا اس وقت پورے شہر میں جگہ جگہ روزہ افطار کا انتظام موجود ہے، انمول فائونڈیشن کی طرف سے نارتھ کراچی اور نیو کراچی میں ہزاروں لوگوں نے پہلا روزہ کھولا کراچی والوں کا دل بہت بڑا ہے مگر اس وقت پنجاب سے بے شمار فقیر و بھکاری آچکے ہیں ان کو دینے کے بجائے سفید پوش لوگوں کو تلاش کرکے ان کی مدد کریں۔ میں نے ایک اکائونٹ کھولا ہے جس کا نام غریب بینک ہے۔ میرے استاد محمد محسن نے ایک لاکھ روپے سے میرے پاس اکائونٹ کھولا جس سے میں لوگوں کی امداد کرتا ہوں ان کو چھوٹا موٹا کاروبار کروا دیتا ہوں، اگر آپ اس خیر کے کام میں شریک ہوں تو یہ سلسلہ بڑھ سکتا ہے۔ خیر کا کام کریں لوگوں کی مدد کریں جس طرح سے جماعت اسلامی ہر مصیبت میں لوگوں کے کام آتی ہے۔ سیلاب میں جماعت اسلامی نے ریکارڈ خدمت خلق کا کام کیا ہے ہمارے ملک کی واحد عملی جماعت ہے جو سیاست کو بھی عبادت سمجھتی ہے مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ ان کو اقتدار میں آنے ہی نہیں دیتی جس دن ملک میں ایماندارانہ الیکشن ہوئے جماعت اسلامی بھاری اکثریت سے جیت سکتی ہے۔ مجھے جماعت اسلامی پسند ہے اس کی وجہ ان کی پارٹی میں حقیقی جمہوریت نظر آتی ہے موروثی سیاست سے پاک ملک کی واحد ایماندار جماعت اگر ہے تو جماعت اسلامی ہے، رمضان میں دل کھول کر الخدمت کا ساتھ دیں۔