سیدنا سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تمہارے اوپر ایک بڑا مہینہ سایہ فگن ہوا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات (ایسی ہے کہ) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (اس کے) روزے فرض کیے ہیں۔ اور اس کی راتوں کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینہ میں کوئی نیکی کر کے اللہ سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا اور رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھ جاتا ہے جو شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی ردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے انتہائی اجر ہے جتنا اس روزے دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلادے تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا جس سے اسے پیاس محسوس ہی نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ اور یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے آغاز میں رحمت ہے۔ وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے۔ اور جس نے رمضان کے مہینے میں اپنے غلام یا نوکر سے ہلکی خدمت لی اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور اس کو دوزخ سے آزاد کردے گا‘‘۔ (بیہقی)
یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں کتاب الٰہی کے نزول کا آغاز ہوا۔ قرآن اللہ کے انوار میں سے ایک نور ہے۔ یہ اللہ کا اپنا کلام ہے جو اس کے مقدس فرشتہ نے لفظ و معٰنی کے ساتھ اس مبارک ہستی تک پہنچایا جو جہانوں کے ربّ کی طرف سے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کی گئی تھی۔
یہ کیا ہے؟ اللہ کی ہدایت، اللہ کا کلام، کتاب روشن قرآن، رسول خود قرآن مجسم تھے کہ کسی نے ام المومنین سیدنہ عائشہؓ سے رسول اللہ کے بارے میںدریافت کیا کہ وہ کیسے تھے ان کے اخلاق کیسے تھے؟ اُم المومنین نے ایک مختصر اور جامع فقرہ ہیں رسول کریمؐ کا یوں تعارف کرایا۔ ’’ کَاَنْ خَلُقْہ القرآن‘‘
وہ سراپا قرآن تھے کہ ان کے اخلاق ان کا کردار ان کا قول و عمل سب کچھ قرآن تھا۔ قرآن ہدایت الٰہی ہے۔ رسول ؐ اس ہدایت الٰہی کا جیتا جاگتا عملی نمونہ تھے۔ قرآن شخصیت میں ڈھل گیا تھا اور وہ رسولؐ کی شخصیت تھی۔ قرآن اللہ کی رحمت تھا اور رسولؐ بھی اللہ کی رحمت تھے۔ اللہ کی یہ رحمت رمضان میں نازل ہوئی اس لیے یہ مہینہ بھی رحمت ہے۔
ماہ مبارک اپنے ہر لمحہ میں ہزار ہزار رحمتوں اور برکتوں کو لیے ہوئے پھر ایک بار ہمارا مہمان بن کر آرہا ہے۔ گھر آئے ہوئے مہمان کی خاطر داری کون نہیں کرتا، پھر ایسے محترم اور مقدس اور معزز مہمان کی خاطر داری! جو ان کی تمام سوغاتوں کو ربّ کائنات کے حضور پیش کردیتا ہے کہ ربّ العالمین یہ تیرے وفا دار بندوں کے نذرانے ہیں جو انہوں نے تیرے حضور پیش کرنے کے لیے میرے حوالے کیے ہیں۔ اب تو ان کے لیے اپنی مغفرت اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے نواز دے۔ وہ بارگاہ الٰہی میں گواہی دیتا ہے کہ میں نے تیرے بندوں کو وفا شعار اور اطاعت گزار پایا وہ تجھ سے محبت رکھتے ہیں کہہ دن بھر تیرے لیے بھوکے رہتے ہیں ان کے دلوں پر تیرا رعب و جلال ہے کہ وہ راتوں کو تیرے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں اور تیرے حضور گڑگڑاتے اور آہ زاری کرتے ہیں، یہ ان کے روزے ہیں، یہ ان کے رکوع و سجود ہیں، یہ ان کی دعائیں اور یہ ان کے آنسو ہیں میرے مالک!
رمضان ایک بہت بڑی نعمت کو لے کر آیا ہے، یہ نزول قرآن کی نعمت ہے، او ر زمانہ گواہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے اتاری ہے۔ قرآن امت مسلمہ کی عظمت و شوکت عزت و قوت فلاح و بہبود، نجات و سعادت کا ضامن ہے۔
وہ اللہ کی رسی ہے جو ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے جو ان کے جسموں کو صف بہ صف ایک دوسرے سے باندھے رکھتی ہے۔ ان میں اتحاد اسی لیے قائم رہتا ہے کہ ان کا شیرازہ اس قرآن سے بندھا رہتا ہے۔ یہی قرآن تھا جس نے ان کو زمانہ میں سر بلند کیا اور دنیا میں سرخرو کردیا اور جب تک مسلمان اسے تھامے رہے۔ وہ سر کردہ و سر بلند رہے۔ اس نعمت عظمیٰ کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس قرآن کو اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں نافذ و جاری کیا جائے۔ سیرت و کردار کو اس کے سانچے میں ڈھالا جائے زندگی کی راہوں میں ا س کو رہنما بنایا جائے جو قدم بھی اٹھے وہ اسی کی روشنی میں اٹھے، وہ ایک ایک فرد کا مسلک حیات بن جاے۔ اخلاق و عادات کی اساس ہو، وہ ریاست و مملکت کا آئین و دستور ہو، وہ حکومت و انتظام کے لیے ضابطۂ و قانون ہو، وہ تہذیب و تمدن کا شعار ہو۔ عملاً اس میں شکر گزاری کے ساتھ سب کی زبانوں سے الحمدللہ ربّ العالمین کا کلمہ بلند ہو تو پھر یہ شکر گزاری اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے، اور اس کے لیے بے انتہا اجر اس کے خزانہ ٔ رحمت سے عطا ہوتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ ان شکر گزاری کے طریقوں کو سکھاتا ہے وہ ہر روزہ دار مخلص مسلمان کے اندر ہوا و ہوس، طمع و لالچ، اور تمام تر نفسیاتی خواہشوں اور شیطانی ترغیبوں سے منع ہونے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے اس کو ذات کی پاکیزگی اور اس کے اعمال کو حسن ِ ترتیب دیتا ہے۔ وہ ایک مسلم معاشرہ میں درد مندی، غم گساری، اخوت و ہمدردی اور اتحاد و اتفاق کی روح کو بیدار کرتا ہے، وہ حق کی خاطر ایثار و قربانی جدو جہد اور سخت کوشی کی تعلیم دیتا ہے، وہ ہر باطل اور ہر طاغوت سے جہاد کرنے اور اس کو مغلوب کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
ہر نعمت کے ساتھ آزمائش ہوتی ہے، اس بات کو ہمہ دم جانچا اور پرکھا جاتا ہے کہ جو نعمت دی گئی ہے، لوگ اس کی قدر کررہے ہیں یاناقدری، اس کو نیک مقاصد کے لیے کام میں لارہے ہیں جن کے لیے وہ عطا کی گئیں ہیں یا اس کو اپنی ادنیٰ اغراض اور غلط مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس کو خلق خدا کی بھلائی کے کام میں لارہے ہیں، یا اس کے بہانے حقوق العباد کو غصب کررہے ہیں۔ رمضان کے روزے اس آزمائش کے لیے نفس انسانی کا تزکیہ کرتے ہیں، وہ مسلم معاشرہ کے ہر فرد میں امانت و دیانت اور ذمہ داری کے احساس کو پروان چڑھاتے ہیں، ان میں اس نعمت کی ذمہ داریوں کو حسن خوبی سے سر انجام دینے کا سلیقہ پیدا کرتے ہیں، روزہ کے ذریعہ ان کی قوت برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے اور صبر و ثبات کی قوت کو ابھارا جاتا ہے، ماہ صیام نعمتوں کا مہینہ بھی ہے اور آزمائشوں کا بھی۔
رمضان میںقرآن نازل ہوا اور قرآن کی ہدایت کو عام کرنے اور مقتدر و کارفرما بنانے کے لیے رمضان ہی کے مہینہ میں مسلمانوں کو اسلام کے غلبے کے لیے عملی میدان جنگ میںاُترنا ہوگا۔