وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ اشرافیہ کی سبسڈی ختم کردوں گا۔ انہوں نے انقلابی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کام کاروبار نہیں وہ نجی شعبے کی معانت کرے گی میں قرض کی نہیں سرمایہ کاری کی بات کروں گا۔ مٹھی بھر اشرافیہ ۹۰ فیصد عوام کے وسائل پر قابض ہے ان کی تقریر ایک انقلابی اپوزیشن لیڈر کی تقریر لگ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ ایک بار پھر وہ کہنے والے ہیں کہ اگر اس مرتبہ عوام کو ترقی یافتہ ملک نہ دیا تو میرا نام بدل دیں۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ بات کہہ دی کہ عرصے سے عوام کی زبانوں پر ہے کہ معیشت بحال کرو اب نہیں یا کبھی نہیں تک بات پہنچ گئی ہے۔ شہباز صاحب یہ بھول گئے کہ حکمران ٹولے کے لیے اب نہیں یا کبھی نہیں کا مرحلہ تو کئی برس قبل گزر چکا ہے لیکن اسے اشرافیہ ہی نے بچایا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اسی اشرافیہ کا حصہ ہے جس کی سبسڈی ختم کرنے کی بات میاں صاحب کررہے ہیں۔ انہوں نے جتنی باتیں کی ہیں وہ صرف باتیں ہیں اور اسمبلی کے اجلاس تک محدود ہیں کیونکہ ان کے نئے وزیر خزانہ جو کاروباری ہیں حکومت میں ہیں اور انہوں نے وزیراعظم کے اعلان کی نفی کردی ہے کہ قرض کی نہیں سرمایہ کاری کی بات کروں گا۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ باتیں نہیں کام کروں گا وہ سرمایہ کاری کو چھوڑ کر کہنے لگے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ ۲۰۲۴ مشکل سال ہوگا۔ اورنگزیب خان صاحب نے جو فرمایا حکومت وہی کرے گی اور وزیراعطم تقریر کریں گے۔ جہاں تک اشرافیہ کی سبسڈی کی بات ہے تو اسے کسی سبسڈی کی ضرورت ہی نہیں تمام مراعات کو اس اشرافیہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں شامل جاگیردار طبقے نے قانون بنا بناکر اپنا حق قرار دے دیا ہے وہ جو لے رہے ہیں اس کا قانونی حق قرار دیتے ہیں سبسڈی تو غریب عوام کو ملنی چاہیے۔