پاکستان میں جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو ٹی وی چینلوں کے نمائندگان مختلف شہروں قصبوں اور بازاروں میں لوگوں سے سروے میں ان کے خیالات کے متعلق جانتے ہیں کہ وہ کس پارٹی اور امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ زیادہ تر لوگ کْھل کر اپنے اپنے لیڈروں سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا لیڈر اور امیدوار جیتے گا تو ہی مسائل حل ہوں گے۔ چینلوں کے کچھ نمائندگان کی کوشش ہوتی ہے کہ خوبصورتی کے ساتھ کسی خاص فرد یا جماعت کے حق میں لوگوں سے کوئی بات کہلانے کی کوشش کریں۔ اکثر یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ خاص جگہوں پر پہلے سے سیاسی جماعت کے لوگوں سے ان کے معاملات طے ہوتے ہیں اور وہ خاص انداز میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان ہی ٹی وی چینلوں کے نمائندگان الیکشن کے علاوہ بھی مختلف علاقوں اور بازاروں میں جاتے ہیں اور علاقہ کے منتخب نمائندے کی کارکردگی کے حوالے سے سروے میں عوامی مسائل اور عمومی صورتحال کے حوالے سے لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر عام لوگ عموماً یہی تبصرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد ان کے منتخب نمائندے انہیں اپنے حلقوں میں نظر ہی نہیں آئے اور علاقہ کے مسائل ویسے ہی حل طلب ہیں جیسے الیکشن سے پہلے تھے۔ حالات سے مایوس اور بد دل کچھ لوگ آئندہ ووٹ نہ دینے کا عندیہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔ عوام کے مسائل کے حوالے سے دو مختلف مواقع پر ایک ہی ’’اشو‘‘ پر لوگوں کی رائے مختلف اور متضاد ہو جاتی ہے۔ عام حالات میں انٹرویو دیتے ہوئے لوگ اپنی مشکلات و مسائل اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہیں اور الیکشن کے موقع پر بات کرتے ہوئے کبھی اپنی سیاسی پارٹی اور لیڈر کی طرفداری میں مسائل کے حل کے حوالے سے غلط بیانی اور تعصب کا شکار بھی ہوتے ہیں۔
پلڈاٹ نے حالیہ الیکشن 2024 کے حوالے سے سروے رپورٹ جاری کی ہے جس میں انتخابی بے قاعدگیوں کی نشاندھی کی گئی ہے۔ ان انتخابات میں رائج الوقت دھاندلیوں کے ساتھ ساتھ ’’دھاندلی پِلَس‘‘ کے اضافہ سے نتائج میں اس بڑے پیمانے پر ایسی جادوئی تبدیلی کی گئی ہے کہ اب مزید نہ کسی سروے اور نہ تجزیہ کی ضرورت باقی رہنے دی گئی ہے۔ دھاندلی زدہ حلقوں میں الیکشن (نَل اینڈ وائڈ) کالعدم کرنے سے کم میں بات بننے اور طویل مدت حکومت چلنے کا بظاہر امکان کم ہی نظر آرہا ہے۔
اگر صرف کراچی کی بات کی جائے کراچی میں روزانہ کی ڈکیتیوں کی وارداتوں اور اس سے متاثرین کے حوالے سے، بد امنی اور حکومت سندھ کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے کیا کسی سروے رپورٹ کی ضرورت ہے؟۔ تھانوں، سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میں کوئی سنوائی یا کام زیادہ تر رشوت دیے بغیر ہونے کے لیے کیا کسی سروے اور رپورٹ کی ضرورت ہے؟ بچہ بچہ گواہی دے گا کہ یہ سب رشوت خور ہیں۔ اسی طرح کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی ہو یا مئیر کے الیکشن کا معاملہ، الیکشن کمیشن، ریاستی اور پس پردہ قوتوں کی دھاندلی کی پشت پناہی کیا اب کسی اور سے چْھپنی باقی رہ گئی ہے؟، الیکشن 2024 دھاندلی پِلَس کے حوالے سے تو گواہیاں، شہادتیں ہر جگہ زبان زد عام ہیں۔ قبل از الیکشن من پسند انتخابی عملہ کی تعیناتی اور تبادلے ہوں یا ووٹوں کی پرچیاں اور گڈیاں غائب کرنا یا بیلٹ بکس کا بھرنا، الیکشن کے دوران پولنگ اسٹیشن میں پولیس اور پولنگ کے عملے کی مدد سے منظم دھاندلی تو پی پی کی حکومت اور ایم کیو ایم کا وتیرہ ہے؟ پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کو آزادانہ ووٹ کے استعمال سے روکنے کے لیے فائرنگ اور ہنگامہ آرائی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پولنگ ایجنٹس کو دھمکانا اور مخالفین کو ڈرانے کے لیے خوفزدہ فضا کی تیاری سب دھاندلی کا حصہ ہے۔ رینجرز کی دوران پولنگ ہنگامہ آرائی میں لاتعلقی، فوج کی حساس پولنگ اسٹیشنوں میں تعیناتی کی درخواستوں کا مسترد کرنا یہ تمام دھاندلی کے شاخسانے ہی ہیں۔ الیکشن میں دھاندلیوں کے تسلسل سے اب تمام تر سنجیدہ اور عوامی حلقے جو اب تک کسی نہ کسی انداز میں اس جاری نظام سے خیر کی توقعات لگائے ہوئے تھے، اتنے بڑے پیمانے پر اور اس سطح پر دھاندلی دیکھ کر نہ صرف دنگ رہ گئے ہیں بلکہ ان کا مکمل اعتماد موجودہ نام نہاد جمہوری نظام سے اٹھ چکا ہے اور وہ سب انتخابی عمل سے بھی شدید مایوس ہو چکے ہیں۔ یہ بہت تشویشناک صورتحال ہے۔
بڑی سیاسی جماعتوں میں عام انتخابات میں امیدواران کے لیے ٹکٹ کی تقسیم کا کیا نظام ہے؟ اور وہ کیوں بھاری رقم کی شرط کے ساتھ ٹکٹ کی درخواستیں وصول کرتی ہیں؟ الیکشن مہم میں ٹیلی ویژن اور اخبارات کے صفحہ اوّل کے جہازی سائز کے اشتہارات یا جلسوں پر تشہیری مہم پر جو اخراجات ہوتے ہیں وہ آخر کہاں سے آتے ہیں؟ اور کیوں اتنے اخراجات کیے جاتے ہیں؟ اور کیا اس کی کوئی حد بھی مقرر ہے؟ اور اگر ہے تو اس پر حکومت کا، الیکشن کمیشن کا کوئی رد عمل کیوں نہیں آتا اور کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟، یہیں سے تو دھاندلی کا نقطہ آغاز ہے جسے ہر سطح پر بشمول میڈیا بوجہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دھاندلی کی تحقیقات کا آغاز ہی یہ اخراجات بنیں گے تو واقعتاً مزید دھاندلی کی وجوہات اور ذمہ داران کا تعین ہوسکے گا ورنہ ہمیشہ کوئی بھی تحقیق اور تفتیش نشستند گفتند اور برخواستند سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔
معاشی طور سے بھوکے عوام روٹی کے نوالہ کے محتاج ہو گئے ہیں، درمیانی طبقہ پس کر ختم ہو گیا ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں عوام اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اگر سعودی عرب کی بات کی جائے کہ وہاں بھی حکمران من مانی کر رہے ہیں اور لوگوں کی آراء اور اسلامی اقدار کے متضاد اپنی پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے شہریوں کے لیے سہولتیں زندگی کے آسان حصول میں کوئی کمی بھی نہیں چھوڑی ہے۔ پاکستان جہاں اب عوام کا ہر طرف سے ناطقہ بند ہے عوامی مزاحمتی ذہن بہت واضح ہے اور جہاں یہ صورتحال ہو جائے وہاں بات خدانخواستہ خانہ جنگی کی طرف نہ چلی جائے۔ دور کیوں جائیں اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی بنیاد پی پی کی 1977 کے الیکشن میں دھاندلی ہی تھی۔ عوامی غیظ و غضب نے ان کا بوریا بستر لپیٹ دیا تھا۔ پی پی کے اْس دور کے مظالم اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ دھاندلی سے جیتے ہوئے اور دھاندلی سے جتانے والے گزشتہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتے اور نہ مستقبل کے نتائج پر کبھی غور کرتے ہیں۔ تعصبات اور ظلم و زیادتی نے ان کو ہر طرف سے اس طرح ڈھانپ لیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں نے ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ انہیں وہ کھلے کھلے عوام کے باغی جذبات نظر نہیں آرہے جو اگر بے قابو ہو گئے تو کسی بھی خود ساختہ منظر نامہ کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔ ان الیکشن کے نتائج کے بعد کچھ لوگوں نے تو اب یہ کہنا بھی شروع کر دیا کہ خدانخواستہ حالات 1970 کے مشرقی پاکستان کی طرف جا رہے ہیں۔
حالات بہت تیزی سے انتشار کی طرف جا رہے ہیں۔ وقت کی نزاکت کو سمجھا جائے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کر کے مصالحتی کاوشوں کا آغاز کر دیا ہے۔ جیتنے والے، جتانے والے اور متاثرہ فریق مل بیٹھ کر بات کریں۔ انا اور ضد کا معاملہ نہ کسی فریق اور نہ ملک کے لیے اچھا شگون ہے۔ تاریخ سے اگر سبق سیکھنا ہے تو صرف بات چیت سے انصاف اور عدل کا حصول ہی تمام فریقوں کے لیے گمبھیر صورتحال سے نکلنے کا حل اور راستہ ہے۔ حکومت اسی کو ملنی چاہیے جسے عوام نے مینڈیٹ دیا۔