قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا یہ ’’اکیسواں رمضان المبارک‘‘ ہے جو امریکی قید ناحق میں گزرے گا۔ اس وقت وہ جرم بے گناہی کی پاداش میں امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع ایف ایم سی کارسویل جیل میں قید ہیں جہاں انہیں جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ کچھ عرصہ قبل انکشاف کر چکے ہیں کہ کارسویل جیل کیے اہلکاروں نے دو مرتبہ ڈاکٹر عافیہ کی عصمت دری کی ہے اور انہوں نے قیدیوں کی جانب سے بے شمار مرتبہ جنسی ہراسگی کا سامنا کیا ہے۔ ان حالات میں ان کا رمضان کیسے گزرتا ہوگا اور ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی کتنی آزادی میسر ہوگی اس کا بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ ایک عام مسلمان بھی دوسرے ایام سے زیادہ اس مہینے میں اپنے ربّ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا امریکی جیل میں ایک اور رمضان کیسے گزرے گا؟ یہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا ایک اور رمضان امریکی قید ناحق میں کیوں گزرے گا؟ کیونکہ وہ بے گناہ ہے۔ سب سے پہلے معروف برطانوی صحافی مریم یوان ریڈلے نے عافیہ کے لیے آواز اٹھائی تھی اور وجہ عافیہ کی بے گناہی تھی۔ اس کے بعد متواتر عافیہ کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے آوازیں اٹھائی جاتی رہی ہیں جسے پاکستانی حکمرانوں کے علاوہ ساری دنیا سنتی ہے۔
فروری، 2011ء میں ’’عافیہ صدیقی – صرف حقائق‘‘ کے عنوان سے انٹرنیشنل جسٹس نیٹ ورک نے ایک رپورٹ کتابچے کی صورت مرتب کی تھی جس میں تفصیل کے ساتھ عافیہ کے اغواء سے لے کر نام نہاد امریکی عدالت کے ٹرائل کا کچا چٹھا کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ اب انسانی حقوق کے ایک اور برطانوی نژاد امریکی وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی کے ثبوت اکھٹے کرنے کے لیے افغانستان کا دس روزہ دورہ کیا ہے جو کہ ان دوسرا دورہ تھا۔ افغانستان سے کراچی آمد کے موقع پر انہوں نے جو تفصیلات بیان کیں اسے مختصراً ذیل میں بیان کیا جارہا ہے۔ جسے پڑھ کر دل سے بے ساختہ ایک آہ نکلتی ہے کہ ’’عافیہ کا اکیسواں رمضان امریکی قید ناحق میں کیوں گزر رہا ہے؟‘‘۔
امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ سمتھ اور ان کی ٹیم عافیہ کے اہم کیس پر افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں مگر افسوس حکومت پاکستان کی طرف سے مطلوبہ امداد نہیں مل رہی ہے۔ کلائیو اسمتھ کا حالیہ دورہ پاکستان دو مقاصد کے حصول کے لیے تھا، ایک افغانستان میں جاری تحقیقات اور دوسرا مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان میں مزید کام جاری رکھنا ہے۔ انہوں نے دس دن معظم بیگ کے ہمراہ افغانستان میں گزارے تاکہ امریکی حراست میں ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے تشدد اور ان کی بے گناہی کے مزید شواہد تلاش کیے جا سکیں۔ کلائیو اسمتھ کا کہنا ہے کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، وہ مئی میں واپس پاکستان آئیں گے۔ ان کی تحقیقات کے مطابق کئی گواہوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو 2003 سے 2008 کے دوران جب وہ لاپتا تھیں بیش تر عرصہ بگرام، افغانستان میں رکھا گیا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس وقت افغانستان میں آزاد تھی یہ سچ نہیں ہے۔ 17 جولائی 2008 کوعافیہ کو اس وعدے کے ساتھ غزنی بھیجا گیا کہ اسے اس کی بیٹی مریم واپس کردی جائے گی۔ یہ ایک دھوکہ تھا جبکہ پولیس کو کال کی گئی تھی کہ وہ خودکش بمبار ہے۔ ڈاکٹرعافیہ کی جان غزنی کے ایک بہادر درزی کی وجہ سے بچی جو اردو زبان بھی بول سکتا تھا۔ جب 40 افغان نیشنل پولیس AK47 گن کے ساتھ وہاں پہنچی تو اس درزی نے عافیہ اور افغان پولیس کے درمیان کھڑے ہو کراس کی جان بچائی اور انہیں بتایا کہ ٹیلی فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔ اس درزی کی گواہی کی تصدیق کے لیے بھی کئی گواہ تلاش کر لیے ہیں۔ یہ ثبوت بھی حاصل کر لیے گئے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی عدالتی ٹرائل میں پیش کیے گئے شواہد شروع سے آخر تک جھوٹے تھے۔
کلائیو اسمتھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ عافیہ پر کام نہیں کر رہی ہے اس وقت سب سے زیادہ ضروری عافیہ کو ایف ایم سی کارسویل (جہاں عافیہ نے بار بار جنسی حملوں کا سامنا کیا ہے) سے کسی دوسری محفوظ جیل میں منتقل کرنا ہے۔ کلائیو اسمتھ جو کہ امریکا میں اکیلے ہی عافیہ کا کیس لڑ رہا ہے، کو پاکستانی نژاد امریکی وکیل فراہم کرنے کی ضرورت ہے جو عافیہ کے قانونی حقوق کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کر سکے۔ اگرچہ کلائیو اسمتھ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو تبادلے میں دینے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس پر راضی نہیں ہے تو اس کی متبادل کچھ اور تجویز پیش کی جائے اور کسی بھی سرکاری اہلکار کو جسے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی سے کوئی مسئلہ ہے تو اس کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ کلائیو اسمتھ سے رابطہ کرے، اس کی وجہ بتائے اور اس کا کوئی متبادل تلاش کرنے میں ہماری مدد کرے۔ کلائیو اسمتھ کی جانب سے عافیہ کو رہا کرانے کا کام جاری ہے اور وہ نیویارک کی عدالت میں فیصلہ چیلنج کرنے سے پہلے افغانستان کا کم از کم ایک اور تفتیشی دورہ کرے گا۔ 2024 کے اختتام سے پہلے عافیہ کی وطن واپسی کو یقینی بنانا کلائیو اسمتھ کا ہدف ہے۔