پاکستانی سیاست بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ ہر شعبے، ادارے، فرد، جماعت گروہ کا اس سے تعلق ہے اور بھرپور تعلق ہے۔ لیکن اس سیاست کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سیاست میں لاتعلقی کے اعلان کا بڑا دخل ہے۔ جنرل ایوب خان کے وقت سے لاتعلقی کے اعلانات ہوتے آرہے ہیں۔ من کہ مسمی… فلاں ابن فلاں… بقائمی ہوش و حواس یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرا فاطمہ جناح نامی خاتون کی سیاسی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ میں صدق دل سے ملک کے ہر دلعزیز سربراہ جناب فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب کا وفا دار ہوں۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوا۔ ایوب خان گئے بھٹو صاحب ڈیڈی کے جانشین ہوئے ان کے دور میں لوگ اسی طرح دوسری سیاسی جماعتوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے۔ اور جنرل ضیا الحق کا دور تو ایسا تھا کہ بھٹو کو زندہ کہنے والے بھی ان کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے لگے اور پیپلز پارٹی سے لاتعلقی کا اعلانات کرتے رہے۔ 11 سال تک یہ اعلانات کرنے کے باوجود جنرل ضیا الحق کے حادثے میں جاں بحق ہوتے ہی جنرل ضیا سے لاتعلقی اور بھٹو سے تعلق کا اعلان کرنے لگے۔ یہ تعلق اور لاتعلقی کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لوٹوں سے اپنی اپنی پارٹیوں سے اعلان لاتعلقی کروایا اور ان کو قاف میں ڈال دیا۔ مطلب براری کے بعد وہ بھی (ق) سے لاتعلق ہوگئے اور کوئی پی ٹی آئی میں گرا اور کوئی واپس اپنے گھر پہنچ گیا، وہاں صبح کا بھولا شام کو لوٹ آیا تو اسے بھولا نہیں کہا گیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا فیضان تھا اور ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت بنوادی گئی۔ اس مرتبہ تو جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں کہہ ڈالا کہ چھے ماہ تک حکومت پر تنقید نہیں کی جائے کیونکہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ جنرل باجوہ نے بھی سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور پھر بات پہنچی۔
اگلا مرحلہ پی ٹی آئی سے لاتعلقی کے اعلانات کا آیا۔ پہلے جناب باجوہ نے لاتعلقی کا اعلان کیا جب ایک ایکسٹینشن لے چکے دوسرے کی امید دم توڑ گئی تو کہا کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر عمران خان کیوں پیچھے رہتے۔ انہوں نے بھی کہا کہ ہمارا باجوہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یوں دونوں ایک دوسرے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے بھرپور تعلق کا اعلان کرتے رہے۔ اب تک عقدے کھل رہے ہیں کہ باجوہ نے کیا کہا اور فیض نے کیا کہا کس نے کس کو پیشکش کی اور کیا پیشکش کی۔ اس کے راوی حضرت مولانا فضل الرحمن ہیں جو گزشتہ ایک عشرے سے پی ٹی آئی اور عمران خان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے رہے۔ اب رسم و راہ بڑھانے کی کوشش میں نظر آئے۔ وہ بھی اب اسٹیبلشمنٹ سے اور وہ ان سے لاتعلقی کا اعلان کررہی ہے۔ یہ لاتعلقی اتنی مفید دوا ہے کہ اس نے بڑے بڑوں کے بڑے بڑے امراض کا علاج کیا ہے۔ اب ذرا 9 مئی کا ذکر ہوجائے۔ اس کے بعد تو لاتعلقی کے اعلانات کا طوفان بلکہ سونامی آگیا جو اب تک آرہا ہے۔ ادھر 9 مئی کو قائداعظم کی رہائش گاہ جناح ہائوس جن میں وہ کبھی مقیم نہیں رہے اس کی بے حرمتی ہوتے ہی کورکمانڈر ہائوس کے بجائے جناح ہائوس کی توہین قرار دیا گیا۔ پھر جی ایچ کیو پر حملہ ہوگیا۔ اور اس قدر تیزی سے گرفتاریاں اور مقدمات قائم ہوئے کہ سونامی بھی اتنی رفتار سے نہیں آتا۔ اس دوران گرفتار لوگوں کی رہائی بھی شروع ہوگئی اور وہ پی ٹی آئی اور 9 مئی سے لاتعلقی کا اعلان کرتے نظر آئے۔ جس نے اعلان کیا کہ وہ ان دونوں سے لاتعلق اس کی چاندی ہوگئی اور اسے کنگز پارٹی سے تعلق قائم کرنے کا شرف حاصل ہوا یا اس کے خلاف مقدمات نے خود اس سے لاتعلقی ظاہر کردی۔ وہ الیکشن میں ہارے یا جیتے لیکن لاتعلقی کے ایک اعلان سے بہت مامون ہیں۔ اب کوئی چھایا نہیں کوئی گرفتاری مقدمہ وغیرہ سے یہ سب چیزیں لاتعلق ہوگئی ہیں۔
لاتعلقی کا اعلان اس قدر مفید ہے اس کا اندازہ شاید آئی ایم ایف کو بھی ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس نے پی ٹی آئی سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں پاکستانی سیاست معاملات سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ یہ دراصل عمران خان سے بھی لاتعلقی اور نئی حکومت سے تعلق کا اعلان تھا کیونکہ آئی ایم ایف کو جو حاصل کرنا ہے نئی پاکستانی حکومت سے حاصل کرے گا۔ جس طرح پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے سمجھدار لوگ لاتعلقی کے اعلانات کو یکسر جھوٹ سمجھتے ہیں یا کسی دبائو کا نتیجہ اسی طرح آئی ایم ایف کے اس اعلان لاتعلق کو جھوٹ ہی سمجھا گیا ہے۔ اور پاکستان میں یا تو دبائو ڈالنے والے سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں یا دبائو میں آنے والے۔ اور دونوں کی بات پر کوئی سمجھدار فرد یقین نہیں کرتا۔ اس اعلان لاتعلقی کے حوالے سے گزشتہ دنوں کورکمانڈرز کانفرنس کا اعلان بھی شائع ہوا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ کانفرنس کا اعلامیہ تھا کہ فوج کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کچھ عناصر الزام تراشی کررہے ہیں۔ 9 مئی کے کرداروں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ مسلح افواج کو بدنام کیا جارہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے اعلان کیا کہ کورکمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے کی تائید کرتا ہوں۔ یعنی فوج کے سیاست سے تعلق نہ ہونے کی تائید۔ دوسری بات یہ کہی کہ 9 مئی کے ذمے داران کو سزا ملنی چاہیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملزمان کا تعین کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات پر تنقید فوج پر تنقید کیسے ہوسکتی ہے۔ لیکن اگلے جملے میں گزشتہ بیانیے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا کہ شریف خاندان نے ووٹ کو نہیں بوٹ کو عزت دی۔ گویا بوٹ کا تعلق سیاست سے ہے۔ اور شریف خاندان کی 25 نشستیں نہیں تھیں لیکن حکومت بنوادی۔ کس نے؟ اس سے لاتعلقی کب کریں گے؟ پتا نہیں… اس اعلان لاتعلقی کے کھیل سے قوم اب اتنی بیزار ہوگئی ہے کہ کسی کو ایسے اعلانات پر یقین نہیں آتا۔ کراچی سے گوادر تک اور کراچی سے پشاور تک کسی سے بھی کسی کے اعلان کے بارے میں پوچھ لیں کوئی یقین سے کسی کے اعلان کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتا کیونکہ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہائوس میں ہر ایک کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس ساری گفتگو اور تحریر سے ہم ابھی سے اعلان لاتعلقی کررہے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے موجودہ… یعنی جو سرکار موجود ہو اس کے وفادار رہے ہیں اور آئندہ بھی رہے ہیں۔ ہمارے بارے میں کسی پروپیگنڈے پر ہرگز کان نہ دھرے جائیں۔