۔47 فارم کی پیداوار حکومت

561

اے ابن آدم آپ ایک بار پھر ہار گئے، اسٹیبلشمنٹ جیت گئی۔ 2018ء میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا، خیر میاں شہباز شریف جو ماضی میں ایک ناکام حکومت کے ناکام وزیراعظم ثابت ہوئے ایک بار پھر 201 ووٹ لے کر اس پاک دھرتی کے وزیراعظم منتخب ہوگئے، ساتھ میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کسی گریٹ گیم کا حصہ نہیں بنیں گے جبکہ یہ عہدہ اُن کو اس گریٹ گیم کا حصہ بننے پر ہی ملا ہے۔ آپ نے کہا کہ چاروںصوبوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، ایسا ممکن تو نہیں کیونکہ آپ کو تو صرف پنجاب عزیز ہے اگر دھاندلی نہیں ہوتی تو آپ صرف لاہور تک محدود ہوتے، دعا دیں اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کو جو وزیراعظم بننے کے اصل حق دار تھے۔ آپ نے فرمایا کہ بجٹ میں ٹیکس لیول کم کریں گے، جناب یہ آپ کے بس کی بات نہیں جو کرنا ہے، وہ آئی ایم ایف کو کرنا ہے۔ دوسری طرف جلد جناب آصف علی زرداری صدر پاکستان کا حلف اٹھالیں گے۔ پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل نے عمر ایوب کو وزیراعظم کے لیے نامزد کیا تھا، ان کو 92 ووٹ ملے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ شہباز 47 فارم کی پیداوار ہیں، وزیراعظم کا الیکشن غیر قانونی ہے، حکومت فاشسٹ ہے۔ بات تو عمر ایوب کی سچ ہے مگر ہمارے ملک میں نہ کوئی سچ کو سنتا ہے نہ ہی برداشت کرتا ہے، ایک طرف تو وزیراعظم ٹیکس لیول کم کرنے کی باتیں کررہے تھے دوسری طرف آئی ایم ایف حکومت سے مطالبہ کر رہی تھی کہ خوراک، دوائوں، پٹرولیم مصنوعات اور اسٹیشنری سمیت متعدد اشیا پر 18 فی صد جی ایس ٹی نافذ کریں، عوام تیار ہوجائیں ہر مہینے ان پر کبھی گیس بم، کبھی بجلی بم، کبھی آٹا بم، کبھی تیل بم گرنا شروع ہوجائیں گے۔ پٹرول بم تو قوم کا مقدر بن چکا ہے، آج 5 مارچ کو پورے کراچی میں شام 7 بجے سے گیس کی فراہمی بند عوام پریشان، روٹی والوں کے مزے خوب مال کمایا، ایک واحد محکمہ سوئی گیس کا تھا جس کے بل سے یا سروس سے عوام خوش تھے مگر آئی ایم ایف کے ہوتے ہوئے اس ملک کے عوام کبھی خوشحال ہو ہی نہیں سکتی۔ رمضان کی آمد ہے آپ دیکھنا عوام کا کس طرح سے بُرا حال کیا جائے گا، جب فارم 45 والوں کو حکومت نہیں دی جائے گی تو یہ حال ہوگا، اس وقت کراچی کے عوام واقعی میں جیتے ہیں عوام نے بلدیاتی الیکشن میں بڑی امید کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار کیا تھا کہ ان کی تکالیف کا مداوا ہو مگر پیپلز پارٹی نے شب خون مار کر عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، آج بھی کراچی مسائل کے حل کو ترس رہا ہے، کراچی کے نام پر ووٹ لینے والے اقتدار کی لالچ میں کبھی مسلم لیگ (ن) تو کبھی پیپلز پارٹی کی طرف بھاگ رہے ہیں مجھے تو ایم کیو ایم پاکستان پر حیرت ہوتی ہے، کم سے کم ٹکٹ دیتے وقت امیدوار کے بارے میں پوری معلومات جماعت کے پاس ہونی چاہیے، متحدہ کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر موہن کا ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے استعفا لے لیا گیا ہے، ان کی اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے میں بھی سرگرمیاں نوٹ کی گئیں، متحدہ کی قیادت سے اپیل ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کی قربانیوں سے یہ پاکستان وجود میں آیا ہم بانیان پاکستان کی اولادیں ہیں اس طرح سے پارٹی ٹکٹ نہ دیا جائے۔ خیر آگے آگے دیکھیں۔
وزیراعظم صاحب نے معاشی بحالی کو فوکس کیا ہے مگر ان کو آئی ایم ایف کا سامنا بھی کرنا ہے اور مزید قرض لینے کے لیے کارکردگی بھی دکھنا ہوگی۔ قرضوں کا حصول اس کی کڑی شرائط کے تابع ہے اور حالیہ برسوں میں ان شرائط پر عملدرآمد سے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان آچکا ہے۔ جس سے عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہوگئی ہے۔ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ آئی ایم ایف کے خیال میں پاکستان میں مزید ٹیکس کی بڑی گنجائش ہے اس کے لیے موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے بجائے ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانا ضروری ہے۔ آئی ای ایف نے تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان سالانہ تین ٹریلین روپے مزید جمع کرسکتا ہے جو اس کے اقتصادی حالت بہتر بناسکتے ہیں۔ اس کے لیے انکم ٹیکس کے نظام میں اصلاحات ضروری ہیں جن کے تحت ٹیکس انتظامیہ کو مزید مضبوط بنایا جائے اور گورننس کو بہتر بنا کر شہریوں کو ٹیکس ادا کرنے کی ترغیبات دی جائے۔ آئی ایم ایف کے نزدیک پاکستان میں ٹیکس صلاحیت عام تصور سے کہیں زیادہ ہے جسے بروئے کار لا کر ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت کو اگر معیشت کا پہیہ پوری رفتار سے اور عوام کی فلاح کے لیے چلانا ہے تو ٹیکسوں کے لیے تنخواہ دار طبقے اور چھوٹے دکانداروں پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے نئے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے۔ عوام اب مزید مالی بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آئی ایم ایف کا حکومت کو یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے کام کریں جس سے معاشی بدحالی ختم ہوسکے اور خاص طور پر پسماندہ طبقوں کو ریلیف مل سکے۔ یہ جمع خرچ تو آئی ایم ایف کا ہے ہمارے ملک میں سب سے بڑے ٹیکس چور، چودھری، سرمایہ دار، وڈیرے ہیں جو آٹے میں نمک کے برابر ٹیکس ادا کرتے ہیں تمام سیاست دان چند ایک کے سوا سب ٹیکس چور ہیں اگر ہم آئی ایم ایف سے قرض لیتے رہے تو ہم کبھی بھی مستحکم اور عوام خوش حال نہیں ہوسکتے، طاقت کے نشے میں چور ہمارے حکمران بھول جاتے ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو عوامی انقلاب آتا ہے یا اللہ کا عذاب فرعون کا دریائے نیل میں ڈوبنے کا کیا کوئی پروگرام تھا مگر اللہ نے اس کو عبرت کا نشان بنادیا۔ شداد اگلے سیکڑوں سال اپنی جنت میں عیاشیاں کرنا چاہتا تھا مگر دروازے پر پہنچ کر مر گیا۔ نمرود تو کئی سال حکومت کرنا چاہتا تھا مگر ایک مچھر نے اس کی زندگی ختم کردی۔ یزید نے امام حسینؓ کو شہید کرکے لمبا عرصے حکومت کرنے کا سوچا مگر 3 سال بعد ہی مر گیا۔ آج اس کی نسل کا بھی نہیں پتا۔ ہٹلر کے ظلم تو آپ سب کو یاد ہیں مگر حالات ایسے پلٹے کے خودکشی پر مجبور ہوا۔ دنیا کے ہر ظالم کو ایک مدت تک ہی وقت ملتا ہے۔ جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو کچھ کام نہیں آتا۔ سارا غرور، گھمنڈ، تکبر یہیں پڑا رہ جاتا ہے۔