مودی سرکار کے کالے کرتوت

461

مودی حکومت نے کشمیریوں کی زمینوں پر کسی نہ کسی بہانے قبضہ جمانے اور ان پر بھارتی ہندوؤں کو بسانے کی اپنی مذموم مہم اگست 2019ء میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد تیز کر دی ہے جس کا واحد مقصد علاقے کے مسلم اکثریتی تشخص کو نقصان پہنچانا ہے۔ مودی حکومت نے اپنے نوآبادیاتی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ضلع بڈگام کے علاقے اچھگام میں ’’مہا راشٹر ہاؤس‘‘ کی تعمیر کے لیے 20 کنال اراضی مہا راشٹر حکومت کو فراہم کی ہے۔ مہا راشٹر کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ سے ’مہار اشٹرا بھون‘ کی تعمیر کے لیے علاقے میں اراضی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس اراضی پر 77 کروڑ کی لاگت سے مہا راشٹر بھون تعمیر کیا جائے گا۔ بھارتی حکومت پہلے ہی یہ اعتراف کر چکی ہے کہ مقبوضہ وادی کے تینوں خطوں، جموں، کشمیر اور لداخ میں فوج نے دس لاکھ چون ہزار سات سو اکیس کنال زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ آٹھ لاکھ پچپن ہزار چار سو سات کنال کے مجموعی رقبہ پر فوج، سی آر پی ایف، بی ایس ایف اور انڈو تبتّین بارڈر پولیس یا آئی ٹی بی پی غیر قانونی طور قابض ہے۔ جبکہ ایک لاکھ ننانوے ہزار تین سو چودہ کنال کے حقوق حکومت نے مقامی قانون کی رْو سے فوج اور دیگر ایجنسیوں کو منتقل کردیے ہیں۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن بڈگام نے مہا راشٹر حکومت کو زمین کی منتقلی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اراضی نئے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کے لیے تھی۔ بارایسوسی ایشن نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر بڈگام نے مہا راشٹر حکومت کو اراضی کی منتقلی کی کارروائی کر کے ایک انتہائی منفی کردار ادا کیا کیونکہ ان کے اس اقدام سے ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ بار ایسوسی ایشن نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے اور اس پر ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کی تعمیر کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔

اس حوالے سے لداخ سرفہرست ہے جہاں چار لاکھ تین ہزار چھے سو کنال سے زائد رقبہ پر فوج کے کیمپ اور اہم تنصیبات قائم ہیں۔ اسی طرح شمالی کشمیر کی تیرہ تحصیلوں میں کْل ملاکر اکیاون ہزار نو سو بانوے کنال زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس خطے کے اوڑی اور کرناہ تحصیلوں میں وسیع رقبہ پر فوجی تنصیبات ہیں۔ سرکار کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کی تحصیلوں میں بیس ہزار سات سو ستانوے کنال اراضی فوج کے تصرف میں ہے۔ وسطی کشمیر کے سرینگر، بڈگام اور گاندربل خطوں میں پچپن ہزار چار سو اڑسٹھ کنال زمین پر فوج اور نیم فوجی عملہ مقیم ہے۔ زرعی زمینوں، میوہ باغات اور رہائشی مکانوں کو فوج و نیم فوجی عملہ سے خالی کروانے کے لیے یہاں کی ہند نواز جماعتیں وقفہ وقفہ سے سیاسی مہم چلاتی رہی ہیں۔ اس دوران حساس سماجی حلقے بھی وادی میں فوج کے پھیلاؤ پر فکر مند ہیں۔

مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مقبوضہ جموں وکشمیر عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا مسلسل شکار ہے۔ مقبوضہ علاقے میں امن و ترقی کے بی جے پی حکومت کے دعوے بالکل بے بنیاد ہیں اور علاقے میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے علاقے کے دورے سے قبل پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں اور بلا جواز پابندیوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

بھارت کے ہندوتوا وزیراعظم نریندر مودی نے 7 مارچ کو سری نگر کا ایک روزہ دورہ کیا۔ اس دوران فوجیوں نے سری نگر، بڈگام، گاندربل، پلوامہ، اسلام آباد اور کولگام اضلاع کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر چھاپوں اور گھر گھر تلاشی کا سلسلہ دراز کر دیا۔ فوجی گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوں کو ہراساں کرتے رہے۔ نوجوانوں کو کیمپوں اور تھانوں میں طلب کیا جاتا رہا، جہاں انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سرینگر میں خاص طور پر فورسز کے اضافی دستے تعینات کیے گئے، اہم راستوں اور شاہراہوں پر مزید چیک پوسٹیں قائم کی گئی جہاں فورسز اہلکار گاڑیوں، مسافروں اور راہگیروں کی سخت تلاشی لیتے رہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ نریندر مودی کا مقبوضہ علاقے کا دورہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ گزشتہ 76برس سے بھارتی مظالم کا شکار کشمیریوں کے آگے نریندر مودی کی حیثیت ایک مجرم سے زیادہ کچھ نہیں۔ بھارتی فوجی مودی ہی کے حکم پر حق خودارادیت کے مطالبے کی پاداش میں کشمیریوں کو انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم بھارت کی تمام تر چیرہ دستیوں کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف اپنی جدوجہد مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔

نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے دورے کا مقصد دنیا کو دکھانا ہے مقبوضہ کشمیر کے حالات نارمل ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا دکھا کر دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی حکومت کی سازش کو ہر وقت ناکام بنا دیا۔ ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس کی جانب سے دی گئی جس کا مقصد نام نہاد بھارتی سرکار کو کھلا پیغام دینا ہے کہ کشمیری آزادی کے مطالبے سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے اور تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر آسانی سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت سے آزادی چاہتی ہے موجودہ تحریک کو کم و بیش تمام کشمیری قیادت کی حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے مقبوضہ کشمیر کے حالات بھارتی حکمرانوں کے ہاتھ سے نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ فوجی طاقت کے ذریعے غلام بنائے رکھنے کی حکمت عملی کا الٹا نتیجہ سامنے آرہا ہے۔ کشمیری مسلمانوں نے بھارتی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ کشمیری نوجوان کھل کر پہلی دفعہ بھارتی فوج اور پولیس کے سامنے آگئے ہیں جس سے بھارتی حکومت بوکھلا گئی ہے۔