پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ریفرنس بھیجا‘ جس میں چار سوال پوچھے گئے۔ بنیادی بات یہ تھی کہ کیا بھٹو کو انصاف ملا یا نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ریفرنس کی سماعت کی اور اپنی رائے دی کہ بھٹو کیس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ 45 سال کے بعد عدالت عظمیٰ نے رائے دی اور یہ رائے دے کر اس نے دروازہ کھول دیا ہے‘ اب ڈاکٹر نذیر شہید بھی انصاف مانگتے ہیں‘ انہیں بھی انصاف دیجیے‘ وہ ایک ظالم حکمران کے دور میں قتل ہوئے کیونکہ وہ اس حکمران کے لیے ایک ننگی تلوار تھے‘ جب انہیں قتل کیا گیا تب ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، مقتول کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ طرز منافقت اپناتے لہٰذا حکومت کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے تھے اور وہ اس وقت کے حکمران کے لیے اس کے مزاج کا بندہ بننے کو تیار نہیں تھے وہ صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کے بندے بن کر رہنا چاہتے تھے لہٰذا اسمبلی کے اندر اور باہر ایک کھلا چیلنج تھے یہی ان کا جرم تھا وہ فرضی بیانات دینے کے بجائے حق اور باطل میں تمیز کرکے بات کرتے تھے اور ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہے وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ جہالت کیا ہے اور سچائی کی حد کیا ہے۔ وہ وطن عزیز میں مسلمانوں کے لیے ایک مسلمان حکمران دیکھنے کے متمنی تھے اور اس ملک کو کسی کھوٹ کے بغیر اسلامی جمہوریہ پاکستان دیکھنے کی آرزو دل میں بسائے اور سمائے بیٹھے تھے‘ وہ اس ملک کی عدلیہ کو اسلامی عدلیہ دیکھنے کے خواہش مند تھے، وہ جانتے تھے کہ سچ بولو گے تو مار دیے جاؤ گے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جو سچ لکھے گا مارا جائے گا‘ مگر انہوں نے کبھی سمجھوتا نہیں کیا‘ انہیں یقین تھا کہ عدالت ایک روز ضرور لگے گی‘ جس میں جج اللہ ربّ العزت ہوگا اور سزاء فرشتے دیں گے، گواہ اور ثبوت سب کے سب پہلے سے اللہ ربّ العزت کے علم میں ہوں گے تب ہر وہ شخص جس نے انسانیت کے ساتھ جرم کیا ہوگا اور وہ اللہ کی نظر میں مجرم بھی ہوگا اس کے لیے پھر کوئی معافی نہیں ہوگی۔ سیدنا عمرؓ نے کہا تھا کہ اگر دریائے فراط کے کنارے کتا بھی مرجائے تو پوچھ گچھ عمرؓ ہی سے ہوگی۔
ڈاکٹر نذیر شہید‘ منتخب نمائندے تھے، رکن قومی اسمبلی تھے، اپنی پہچان کی وجہ سے وہ ہر ظالم کے لیے ننگی تلوار تھے اس وقت کے حکمران کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ انہیں برداشت کرتا‘ اسمبلی میں ان کے منہ سے نکلا ایک ایک حرف ظلم کے خلاف ہتھیار تھا وہ ایک ایسے منتخب نمائندے تھے کہ جن کے دل میں بات پختہ تھی کہ کل کو ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے اللہ ربّ العزت کو کہ ہم کچھ بھی نہ کر سکے‘ یہاں تک کہ ظالم کے خلاف بات بھی نہ کرسکے۔ ڈاکٹر نذیر شہید جیسا پارلیمنٹرین اب کہاں آئے گا؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کی کارروائی دیکھتے اور رپورٹ کرتے ہوئے عشرے گزر گئے مگر ان ایوانوں میں کوئی ان جیسا نہیں دیکھا۔ جس نے بھٹو دور نہیں دیکھا اسے کیا معلوم کہ ظلم کیا ہوتا ہے
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا
کہیں، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو، حُسنِ یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو، حاکموں کو بُرا بھلا
تمہیں، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیرِ شہر کا ذکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو
کہیں تار تار ہوں، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار گلی گلی
میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض، وہ مان لیں
جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے وہ ہُوا کریں
جنہیں مجھ سے کچھ نہیں واسطہ
انہیں اپنے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں زر کا سکہ اُچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو
جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو
جو میرا امام بیاں کرے
وہی دین ہے، سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمیں میں اتار دو
جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو
جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سے نکال دو
جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے
جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے