یہ رسم تاج پوشی ہے درندوں اور لٹیروں کی

602

1445ہجری کی رواں صدی کے دور کے متعلق باب الاسلام صوبہ سندھ کے دانا بینا قدیم ترین ادوار سے سندھی زبان کے بڑے بوڑھے یہ کہتے ہیں کہ چودھویں صدی سے مرو (سور) نے بھی پناہ مانگی ہے؟ یہ بات مجھے جو الم نشرح ہے یوں یاد آئی جب یہ خبر نظر سے گزری کہ گھوٹکی میں ڈاکوئوں نے گھر میں گھس کر تین افراد کو اغوا کرلیا جن میں دو معصوم کمسن بچے بھی شامل ہیں کچے کے تھانے گیمڑو کی حدود کے گائوں منیر جٹ میں ڈاکوئوں کے گینگ جاگیرانی نے یہ وحشیانہ کارروائی کر ڈالی یوں خالد جٹ اور کمسن بھتیجے عاطف جٹ، اور اس کے بھائی کو اغوا کرکے لے گئے۔ یہ وہی بدترین دور ہے جس سے بدترین مخلوق ’’سور‘‘ بھی پناہ مانگتے بتائے گئے ہیں۔

سندھ میں رہزنی کے بھی اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے، چور، تو ذرا سا شور سن کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ چور کے پیر نہیں ہوتے وہ ہوا ہوجاتے ہیں۔ ڈکیتی کے ضوابط بھی تھے ڈاکو سید کو لوٹتے نہ تھے اب بھی کسی حد تک اس کی پاسداری کرتے ہیں، اس وقت ڈاکوئوں میں یہ احترام نبی کریمؐ کی نسبت سے سیدوں کے ساتھ تھا اور اب سید بادشاہ ویسے ہی قابل احترام میں جیسا چلن عام ہے۔ ڈاکوئوں کے حوالے سے قصہ مشہور ہے کہ پیر صاحب پگاڑو (مرحوم) جو اکیلے سفر کرتے تھے رات کو محو سفر تھے کہ گھات میں بیٹھے ڈاکوئوں نے ان کی گاڑی کو روکا پیر صاحب پگاڑو نے کار سے اُتر کر دیدار کرایا یہ دیکھ کر تو ڈاکو پیروں میں گر پڑے اور لگے معذرتیں کرنے اور دعا کی درخواست کرنے، تو ہاں یہ احترام و عقیدت ہی اس دور کے ڈاکوئوں کا خاصہ تھا ڈاکو عورتوں پر ڈاکا ڈالنے کو مردانگی کے خلاف گردانتے تھے اور سندھ کی کہاوت ہے کہ نیانی سات قرآن کے برابر مقدس ہوتی ہے۔ کارروائی کے دوران ڈاکو ان کے سر پر دوپٹا ڈال کر ان جذبات کا احترام کیا کرتے تھے، ڈاکو امیروں کو لوٹتے تھے، غریبوں کی مدد کرتے تھے مگر اب جب سے سیاہ، ست نے ڈاکوئوں کا روپ دھارا اور یہ سیاست دانوں کی کمائی اور دابا کا ہتھیار بنے سب کچھ تلپٹ ہوگیا، قول قرار بدل گئے ایک سیاست دان کا یہ جملہ بھی مشہور ہوا کہ ڈاکو سانپ نہیں جو مٹی کھا کر گزارہ کرے۔ تاوان دو، بندہ لو، جنگلات گھنے جو ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہوتے تھے، یہ کچے کے علاقے کے جنگلات انہوں نے ملیا میٹ کرکے اربوں، کھربوں مالیت کی لاکھوں ایکڑ زمین پر ڈاکا ڈالا اور راجدھانی بنالیں، قابض ہو کر حکومت کی رٹ کو چیلنج یوں ہی نہیں کرنے لگے، کہنے والے کہتے ہیں کہ اب خطرناک ڈاکو، کا کھونٹا سیاست دان ہیں جن پر یہ نازاں ہیں۔

حالیہ انتخابات میں کچے کے علاقے میں جہاں سندھ پولیس 40 ارب روپے سے زائد خرچ کے باوجود داخل نہ ہوسکی ایک سیاست دان وہاں گیا اور اس نے استقبالی فائرنگ کے جلوس میں جلسہ کر ڈالا، ہر جگہ اب تو ڈاکو راج ہی سر کا تاج ہے۔ چوری چکاری چھوٹوں کی کارگزاری ٹھیری ہے۔ ترقی کرکے ڈاکو مالی ڈاکا زنی سے اغوا انسانی تک آگئے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے جھانسا دے کر لالچ دکھا کر بلاتے ہیں، مغوی اور یرغمال کرکے کروڑوں تاوان وصول کرتے ہیں۔ کچھ من چلے کہتے ہیں کہ ڈاکوئوں نے یہ سبق ڈاکو سیاست دانوں سے سیکھا ہے، ان ہی کی طرح یہ سبز باغ دکھاتے ہیں، پنجرے میں پولنگ اسٹیشن کی طرح بلاتے ہیں اور پھر بھاری تاوان کی اسی طرح واردات کرتے ہیں۔ جس طرح ڈاکو سیاست دان ووٹ کی پرچی پر ڈاکا ڈال کر اقتدار کی کرسی حاصل کرتے ہیں۔ رہی پولیس جو ڈاکوئوں کی بیخ کنی پر مقرر ہے وہ تو کہنے والے کہتے ہیں ان کی بانھ بیلی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح الیکشن کمیشن ووٹوں کی ڈاکا زنی میں سیاسی ڈاکوئوں کی معاونت قرار پاتا ہے۔ اب ڈاکو راج کا یہ عالم ہے کہ لوگ گھر سے اغوا کیے جارہے ہیں کیا یہ بھی اس کی مماثلت نہیں رکھتے جس طرح وڈیرہ ووٹروں کو گھر سے اٹھا کر پولنگ اسٹیشن تک زور زبردستی یا رضا مندی سے لے جا کر اس کے ضمیر پر ڈاکا ڈال کر مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کو ووٹ دے جس کی جیت اس کی جیت ہوگی۔ اور یہ جیت اس کی جیب بھرے گی۔ پاکستان میں تو ایام جاہلیت کا سماں ہے، سندھ میں قافلے لٹ رہے ہیں، رات کیا دن تک کا سفر مشکل ہوگیا ہے۔ خرابی انتہا کو چھو رہی ہے، یہ مماثلت اور یکجہتی لمحہ فکر ہے، دوطرفہ ڈاکا زنی پر چیخ و پکار سے شرفا کی، جو توتی کی آواز نقار خانے کی بن کر رہ گئی ہے کہیں جائے امان نہیں لوگ برملا کہہ رہے ہیں ’’تو بھی ظالم ان کا چاہنے والا نکلا‘‘ اس کھیل کی ایک اور کہاوت بھی ہے لوٹ کا مال لاٹھی کاواں یوں ہی تاوان کا مطالبہ اور اقتدار کا بٹوارہ ہورہا ہے، کسی نے خوب کہا ہے،

جسے تم ووٹ کہتے ہو نظام زر کی بستی میں
یہ رسم تاج پوشی ہے درندوں اور لٹیروں کی