’’نیل اب فرعون نہیں ڈبوتا‘‘

676

فرعون جننے اور قارون وہامان پالنے والی مصر کی سرزمین بانجھ نہیں ہوئی، آج بھی فرعون جن رہی ہے۔ ہاں البتہ بوڑھا نیل فرعون ڈبونے کے فریضے سے غافل ہو گیا ہے۔ آج بھی جمال ناصر کی جدید کچھار میں پلنے والے ابناء الفراعنہ حسن البنا کے بھائیوں، شاگردوں اور وارثوں کا خون پی رہے ہیں۔ جدید مصر کے سیکولر آمر جمال ناصر نے بڑے فخر سے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ ’’نحن ابناء الفراعنہ‘‘ (ہم فرعونوں کی اولاد ہیں)۔ جدید دور کے فرعون نے بالکل درست کہا تھا۔ صدیوں بعد بھی فرعون کی نئی نسل پورے اعتماد کے ساتھ فرعون کے نقش قدم پر گامزن ہے۔

ہزار وں سال پہلے فرعون یہودیوں کے بچوں کو قتل کرواتا تھا۔ آج کے فرعون عیسائی حکمرانوں اور یہودیوں کی شرپرستی میں یہودیوں کی خوشنودی کے لیے اہل ایمان کا خون بہاتے نہیں تھکتے۔ گزشتہ ساٹھ سال سے یہ فرعون عدالتی درباریوں کی مدد سے اصحاب الاخدود کے وارث بے گناہ اخوانیوں کے لہو سے اپنے جبڑے لال کر رہے ہیں۔ نہ خون پی پی کر ابناء فرعون کا من بھر رہا ہے اور نہ خون دینے والے اہل توحید کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ مصر کے جنگل میں نہ خون ختم ہوتا ہے نہ خونخوار درندے۔ مصر کی سرزمین پر خون پینے اور خون پیش کرنے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔

خبر یہ ہے کہ ’’مصر میں فوجداری عدالت نے اخوان المسلمین کے 8 رہنماؤں کو سزائے موت سنادی۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اخوان المسلمین کے سزا پانے والے رہنماؤں میں 80 سالہ محمد بدیع بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے قید میں ہیں۔ قبل ازیں محمد بدیع کو سنائی گئی سزائے موت عمر قید می تبدیل کردی گئی تھی، مگر اب پھر انہیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ فوجداری عدالت نے اخوان المسلمین کے سربراہ محمد بدیع اور نائب سربراہ محمود عزت سمیت 8 رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جب کہ دیگر افراد میں سے کچھ کو عمر قید، 6 افراد کو 15 سال قید اور 7 افراد 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ مصر میں فوج کی جانب سے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد اخوان المسلمین کے رہنماؤں کو فوجداری عدالتوں سے سزاؤں کا سامنا ہے۔ مصر میں تنظیم کو 2013ء میں دہشت گرد بھی قرار دیا گیا تھا‘‘۔

صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اخوان کے کئی رہنماؤں کو اب تک سزائے موت دی جا چکی ہے، جن میں 79 سالہ محمود عزت بھی شامل ہیں۔ انہیں 2020ء میں گرفتار کرنے کے بعد موت کی سزا دی گئی۔ ان کے علاوہ دیگر رہنما محمد البلتاگی، عمرو محمد ذکی، اسامہ یاسین، صفوت ہیگزی، عاصم عبدالمجید اور محمد عبدالمقصود کو بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ 2013ء میں مصری فوج نے اخوان سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد سے اخوان المسلمین کے متعدد رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے جاچکے ہیں اور سیکڑوں کو قید اور سزائیں دی جاچکی ہیں۔ اخوان کے کئی قائدین کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں ہیں جب کہ منتخب صدر محمد مرسی بھی دوران قید انتقال کرگئے تھے‘‘۔

مصر کی فوجی ’’عدالت‘‘ کی طرف سے ملک کی اکثریتی پارٹی کے سربراہ سمیت آٹھ مرکزی رہنماؤں کو سزائِ موت سنادی گئی۔ مصر میں اخوان کے خلاف یہ ظلم ستر سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ تازہ خبر اسی سلسلۂ ظلم کی کڑی ہے۔ اخوان کا مشن فرعونوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اللہ کے بندوں کو غلام بنانے والے فرعون دور قدیم کے ہوں یا دور جدید کے یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی ان کے مقابل یہ کہے کہ

اللہ ربنا .. محمد نبینا … الاسلام دیننا … القرآن دستورنا

(اللہ ہمارا رب ہے۔ محمدؐ ہمارے نبی ہیں۔ اسلام ہمارا نظام حیات ہے اور قرآن ہمارا دستور ہے)

فوجی عدالت کی طرف سے اخوان المسلمین کے رہنمائوں کو سنائی جانے والی سزائِ موت کی خبر میرے ملک کی آزاد، زرد بلکہ سیاہ صحافت کے کسی بھی اخبار یا ٹی وی چینل کے لیے بریکنگ نیوز تو دور کی بات خبر کے معیار پر بھی پوری نہ اتر سکی۔ اس لیے کہ اخوان المسلمون فرعونوں کی باج گزار بننے کے بجائے ربّ کائنات کی غلامی کی قائل ہے۔ زرپرست، غلام پاکستانی میڈیا کے خبریت کے معیار بھی زر کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے معیار پر نہ پاکستان کی محبت میں پچاس سال بعد پھانسیوں پر جھولنے والے بنگلا دیش کے مظلوم قابل ذکر ہیں اور نہ مصر کے اہل حق!

نیل سرکش فرعون کو تو غرق کرتا ہے مگر یہودیوں کے غلام ابناء فرعون کو نہیں ڈبوتا!