انوارالحق کاکڑ کی نگران حکومت کے مختصر وقفے کے بعد ملک میں ایک بار پھر پی ڈی ایم حکومت کی واپسی ہوئی ہے۔ شہباز شریف نے وزیر اعظم کے طور پر اپنا عہدہ سنبھال لیا ہے اور آصف زرداری کی ایوان صدر میں موجودگی اس حکومت کو پی ڈی ایم ٹو کہنے کے لیے کافی ہے۔ بھلے سے بلاول زرداری کا دل حکومت سے اپوزیشن بننے کو بھی مچلتا ہے مگر موجودہ گہری اور منقسم سیاست کے ماحول میں نیمے دروں نیمے بروں کا یہ انداز زیادہ کارگر نہیں رہ سکتا۔ بلاول زرداری کبھی حکومت کبھی اپوزیشن کے اس انداز سے حالات سے بری الذمہ نہیں ہو سکیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا انتخاب اسمبلی کے اندر ایک شدید کشیدہ ماحول میں ہوا اور یوں لگ رہا تھا کہ جیتنے والے جیت کے احساس اور تاثر سے سرشار نہیں تھے ان کی جیت بھی شکست کا انداز لیے ہوئے تھی۔ اپنے ملک کے اندر اس کمزور اعتماد کی حامل حکومت بیرونی دنیا میں پاکستان کا مقدمہ کس طرح اعتماد سے پیش کر سکتی ہے۔ اس کے لیے ایف بی آر کے سابق چیرمین شبر زیدی کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ ’’آٹھ فروری کی صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک پاکستان بہت مضبوط ہو گیا تھا لیکن آٹھ فروری شام پانچ بجے سے اب تک بہت کمزور ہو چکا ہے‘‘۔ شبر زیدی نے بہت لپیٹ کر بات کی ہے مگر ایک ماہر معیشت کے طور پر ان کا تجزیہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں انتخابی نتائج کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی گئی اس نے پاکستان کو کمزور کر دیا۔
الیکشن کے دن شام پانچ بجے تک عوام کی بڑی تعداد رسیاں تڑوا کر اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دے رہی تھی اور صاف لگتا تھا کہ عوام کے اس انداز کے باغیانہ اور انقلابی انداز سے بننے والی حکومت گھر ہی سے اعتماد لے کر چلے گی۔ اپنے عوام کی خواہشات کا دعویٰ کرے گی اور اپنے عوام پر معاشی بوجھ ڈالنے میں جھجک اور تامل کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہوگا۔ عالمی اقتصادی اداروں کے دبائو کا مقابلہ عوامی طاقت اور خواہشات کا حوالہ دے کر کرتی رہے گی۔ عوامی اعتماد کی حامل حکومت ہی دنیا میں اعتماد کے ساتھ ملک وقوم کا مقدمہ لڑ سکتی ہے مگر عوام کے ووٹ کے بعد اس فیصلے کے ساتھ جس انجینئرنگ کا آغاز ہوا اس نے پاکستان کا اس اعتماد سے محروم کر دیا۔ رات کی تاریکی میں جو فیصلے ہوئے انہوں نے پاکستان کو کمزور پوزیشن میں لاکھڑا کردیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عالمی اداروں میں یہ رپورٹس نمایاں طور پر جگہ پا رہی ہیں کہ پاکستان میں ہارنے والوں کی حکومت قائم کر دی گئی ہے۔ حکومت سازی کے ہر مرحلے کی خبر دھاندلی کے الزام کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ پی ڈی ایم ٹو حکومت جو بھی قدم اُٹھائے گی دھاندلی اور اقلیتی حکومت کا یہ ٹیگ اس کا منہ چڑاتا رہے گا۔ ایوانوں کے اندر تو احتجاج کا سلسلہ چل نکلا ہی ہے عالمی ایوانوں فورموں اور اداروں میں بھی دھاندلی کا یہ بھوُت ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔ حکمرانوں کو تو شاید اس سے کوئی فرق نہ پڑے مگر پاکستان کا مقدمہ اور اس کی حیثیت کمزور ہوتی چلی جائے گی۔
عالمی راہنمائوں کی مبارکبادیں اپنے عوام کے اعتماد کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ چین، ترکی، بھارت کے حکمرانوں کی مبارکبادیں آچکی ہیں اور اسی طرح ہر دارالحکومت سے ایسے ہی خوشی کے سندیسے آتے چلے جائیں گے۔ ان سندیسوں پر نہ کسی کی ناراضی کا جواز ہے نہ کسی کا اترانا جائز ہے۔ قوموں کے تعلقات اپنے ملکی مفاد کی بنیاد پرقائم ہوتے ہیں کوئی بھی ملک کسی بھی حکومت کی قانونی اور عوامی جوازیت پر سوال اُٹھانے کا حق نہیں رکھتا۔ ترکی نے مصر میں جنرل عبدالفتح السیسی کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں بھگتا ہے۔ جنرل سیسی مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ ترکی نے اس بغاوت کی کھلی مخالفت کی تھی۔ مصر کے عوام کی حمایت اور رابعۃ الندویہ کے قتل عام پر چار انگلیوں کا نشان متعارف کرایا تھا۔ یہ نشان دنیا بھر میں سوشل میڈیا آئیڈیز کی ڈی پی بن گیا تھا مگر مغربی دنیا نے چند دن کے بعد ہی مصر کی اس تبدیلی کو قبول کر لیا تھا اور ترکی مصر کی مخالفت میں تنہا تھا اور تنہا ہی رہا۔ جس کے کافی عرصہ بعد ترکی اور مصر میں سفارتی اور سیاسی تعلقات بحال ہوئے تھے اور شاید اب بھی ان میں رابعہ عدویہ کے حالات کی کھٹاس موجود ہے۔ اس ماحول میں دنیا کی حکومتوں کو اس سے زیادہ غرض نہیں کہ ملک میں فارم پینتالیس والوں کی حکومت ہے یا سینتالیس والوں کا اقتدار قائم ہے۔
بین الاقوامی تعلقات میں ڈی فیکٹو اور ڈی جیور کی بحث نہیں ہوتی۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جمہوریت تو کبھی بااثر مغربی ملکوں کا مسئلہ رہا ہی نہیں اگر یہ ان کا درد ِ سر ہوتا تو پاکستان میں ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف کے مارشل لا کبھی لگتے۔ ان فوجی حکومتوں کے ساتھ مغرب کے تعلقات کی گرم جوشی کی اپنی ہی تاریخ ہے۔ اصل مسئلہ ان اداروں کا ہے جن سے پاکستان کو ڈیل کرنا ہے ان میں آئی ایم ایف سرفہرست ہے۔ عوامی اعتماد سے محروم حکومت آئی ایم ایف کے سامنے اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتی۔اب تو حکومت مقبولیت قبولیت اور مینڈیٹ اور عوامی ناراضی کے جھنجھٹ ہی سے آزاد ہو گئی ہے اور آئی ایم ایف جیسے ادارے اس صورت حال سے بے خبر نہیں۔ ایک بے رنگ بے ضرر اور روکھے پھیکے پاکستان کا نیا سفر شروع ہوگیا ہے۔ بھارت کے پہلو میں سائیڈ افیکٹ سے آزاد ایک ’’ہومیوپیتھک‘‘ پاکستان جس کا تصور امریکی مصنف ڈینیل مارکی نے اپنی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ یہی ہے جس کی صورت گری ہوگئی ہے۔ یہ سوال تو بنتا ہے کہ دنیا کی اُبھرتی ہوئی طاقتوں اسرائیل اور بھارت کے پہلو میں ہومیوپیتھک مصر اور پاکستان کیوں ضروری ہو کر رہ گئے ہیں؟۔