آدمی بھی بڑا بے صبرا واقع ہوا ہے بلکہ قرآن میں تو آیا ہے کہ اسے بڑی عجلت میں پیدا کیا گیا ہے اور یہی عجلت اس کی فطرتِ ثانیہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے ہر کام میں جلدی ہوتی ہے۔ موسموں کا تغیر و تبدل قدرت اپنے قاعدے کے مطابق کرتی ہے کوئی موسم ہمیشہ برقرار نہیں رہتا لیکن اسے جاتے جاتے کچھ وقت تو لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج سردی ہے تو کل اچانک گرمی شروع ہوجائے گی لیکن آدمی کی طبیعت اس ترتیب کو برداشت نہیں کرپاتی۔ وہ چاہتا ہے کہ جو کچھ ہونا ہے پس ابھی ہوجائے۔ لیکن اس ہونے میں سراسر خسارہ ہے، اس لیے قدرت آدمی کو اس خسارے سے دوچار کرنے کے بجائے اسے آہستہ آہستہ اس تبدیلی کا عادی بناتی ہے اور پھر اسے بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرتی ہے۔ موسم سرما اپنا عروج گزار چکا۔ کہتے ہیں کہ اب کی دفعہ وہ سردی نہیں پڑی جو بالعموم اس موسم میں پڑا کرتی ہے۔ اب کی دفعہ بارشیں بھی بہت کم ہوئیں۔ پہاڑوں پر برفباری بھی معمول سے کم ہوئی۔ زیر زمین پانی کا انحصار بارشوں اور برفباری پر ہے۔ یہ معمول سے کم ہو تو زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے۔ ٹیوب ویل خشک ہوجاتے ہیں، زراعت کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوتا، حتیٰ کہ پینے کے لیے بھی پانی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت کم و بیش ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر ڈیم بنا کر ان کا پانی روک دیا ہے جبکہ قدرت بھی اہل پاکستان کا امتحان لیتی رہتی ہے۔ اس سال موسم سرما میں کم بارشیں بھی اس امتحان کی علامت ہیں تاہم موسم تبدیل ہورہا ہے اور رُت بدل رہی ہے۔ یہ بہار کی رُت ہے جو شدید سردی سے نجات کی نوید لے کر آتی ہے۔ فضا میں پھیلی ہوئی دھند چھٹ جاتی ہے، نیلگون آسمان اور کھر جاتا ہے، پھول کھلنے لگتے ہیں اور ہوا ان کی خوشبو سے مہک اُٹھتی ہے۔ بہار کی رُت میں بہار یہ پھولوں کا اپنا حسن ہوتا ہے بقول شاعر
پھول ہیں یا پریاں قطار اندر قطار
نیلے نیلے، پیلے پیلے اودے اودے پیرہن
بہار کے اِن پھولوں میں خوشبو برائے نام ہوتی ہے۔ البتہ ان کے رنگ برنگے پیرہن دل کو خوب لبھاتے ہیں، خزاں رسیدہ درختوں کی سوکھی ٹہنیاں بھی ہری ہوجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے نرم و کومل پتوں کا لباس فاخرہ پہن لیتی ہیں۔ بہار خوشی و شادمانی کی علامت ہے۔ شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں بہار کے قصیدے پڑھے ہیں۔ غالب کہتے ہیں۔
اُگ رہا ہے در و دیوار پر سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
بہرکیف بہار کا دورانیہ ایک ماہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ یہ دراصل سردی اور گرمی کے درمیان ایک خوشگوار وقفہ ہوتا ہے جس میں سردی کے ستائے ہوئے آدمی کو اپنے جسم پر موجود موٹے موٹے کوٹ اور سویٹر اور گرم چادر اُتارنے اور کمر کھولنے کا موقع مل جاتا ہے۔ وہ ابھی کمر کھولتا ہی ہے کہ سورج اسے آنکھیں دکھانے لگتا ہے اور وہ گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے پھر کمر کس لیتا ہے۔ فروری گزر گیا، اس مہینے میں سردی نے خوب رنگ جمائے، بار بار جا کر پلٹتی رہی، اس ماہ کے آخر میں بادل میں گھر کر آگئے، کہیں بارش اور کہیں اولے بھی پڑے اس طرح خنکی میں اضافہ ہوگیا لیکن اب مارچ کا مہینہ ہے جو بہار سے منسوب ہے۔ اس مہینے میں شہر شہر جشن ِ بہاراں منایا جاتا ہے۔ پھولوں کی نمائش لگتی ہے، پھولوں میں گلاب کو بادشاہ کی حیثیت حاصل ہے۔ سرخ گلاب کے کیا کہنے لیکن اب مارچ کا مہینہ ہے جو بہار سے منسوب ہے۔ اس مہینے میں شہر شہر جن بہاراں منایا جاتا ہے پھولوں کی نمائش لگتی ہے پھولوں میں گلاب کو بادشاہ کی حیثیت حاصل ہے سرخ گلاب کے کیا کہنے لیکن پیوند کاری کے ذریعے اسے اور بھی کئی رنگوں میں اُگایا جاتا ہے۔ سفید اور پیلا گلاب تو عام ہے اب نرسریوں میں کالا گلاب بھی مل جاتا ہے۔ گلاب کے شائقین کالا گلاب بھی بڑے شوق سے لگاتے ہیں۔ موتیا اور چنبیلی اپنی خوشبو کے لیے مشہور ہیں۔ جن گھروں میں یہ پودے لگے ہوں وہ گھر ان کی خوشبو سے مہک اٹھتے ہیں۔ ہاں یاد آیا ’’رات کی رانی‘‘ کی خوشبو بھی بڑی ظالم ہوتی ہے۔ اس کا پودا جہاں لگا ہو پورے ماحول کو معطر کردیتا ہے۔ یہ ساری سوغاتیں بہار کی ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ نیکیوں کا موسم بہار بھی اسی مہینے میں آرہا ہے۔
بہار تو مارچ میں اپنا جلوہ دکھا کر رخصت ہوجاتی ہے لیکن اس کے پھولوں کے تحفے موسم گرما میں بھی اپنی خوشبو بکھیرتے رہتے ہیں۔
لیجیے صاحب موسم گرما بھی آیا کھڑا ہے۔ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اب کی دفعہ گرمی بھی قیامت کی پڑے گی۔ یوں تو ہر سال قیامت کی گرمی پڑتی ہے۔
ممکن ہے اس سال قیامت میں اور اضافہ ہوجائے لیکن اس اضافے کا تعلق براہ راست بجلی کی لوڈشیدنگ سے ہوگا۔ سردی میں گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور گرمی میں بجلی کا، حکومت صارفین کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی قیمتوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ اس کے پاس گیس، بجلی اور پٹرول کے علاوہ اور ہے کیا جس کی قیمت بڑھا سکے۔ آئی ایم ایف کی تان بھی ان تینوں اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے مطالبے پر ٹوٹتی ہے۔ اس عالمی ساہوکار کو بھی عوام کی کھال کھینچنے میں لطف آتا ہے۔ اس نے آج تک یہ مطالبہ نہیں کیا کہ حکمران اشرافیہ کی لاکھوں ڈالر سالانہ کی مراعات ختم کی جائیں اور اسے اپنی تنخواہ میں گزارہ کرنے کا پابند کیا جائے۔ آئی ایم ایف کو معلوم ہے کہ اگر اس نے یہ مطالبہ یا تو پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہوجائے گا اور اس کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ ہم لوڈشیدنگ کی بات کررہے تھے اِس دفعہ تو سردیوں میں بھی دس دس بارہ بارہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی رہی ہے اس کی وجہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کی کمی بتائی جاتی ہے۔ ڈیمز میں پانی کی سطح کم ہونے سے بجلی گھر پوری استعداد کے مطابق بجلی پیدا نہیں کرپاتے اور طلب و رسد میں غیر معمولی فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ گرمیوں میں بھی یہ فرق برقرار رہے گا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگا اور گرمی عوام پر قیامت بن کر ٹوٹے گی۔
تو صاحب آئیے گرمی کے استقبال کے لیے ابھی سے کمرکس لیں