تحریک اسلامی موجودہ دور میں چہار اطراف مصروف عمل ہے۔ ایک جانب اس کا تنظیمی ڈھانچہ ہے، دوسری جانب خدمت خلق (الخدمت) کا وسیع نیٹ ورک جو پاکستان کی جغرافیائی حدود کو بھی پھلانگ چکا ہے، تیسری جانب اس کا نظام تربیت ہے، اور چوتھی جانب ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا محاذ ہے۔ اس حوالے سے ماہنامہ ترجمان القرآن (www.tarjumanulquran.org) جسارت (https:\\www.jasarat.com) رسالہ ایشیا اور سوشل میڈیا کے مختلف فورمز ہیں۔ ریڈ مودودی (کتب لائبریری) (https:\\readmaududi.com) ہو، جماعت اسلامی خواتین ونگ کی ویب سائٹ (https:\\jamaatwomen.org) یا جماعت اسلامی کی ویب سائٹ (https:\\jamaat.org)، اسلامک ریسرچ اکیڈمی ہو (https:\\irak.pk)، یا تصنیف و تالیف وغیرہ کے دیگر تحقیقاتی ادارے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اتنے وسائل کے ساتھ کیا تحریک اسلامی، اسلام کی دعوت کے حوالے سے پیش قدم ہے؟ کیا واقعی اسے مطلوب وسیع عوامی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے؟۔ اطمینان قلب کی بات ہے کہ فروری 2024 کے انتخابات میں تقریباً 30 لاکھ مرد و خواتین نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا، یہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے جو مستقبل میں کامرانی کی نوید بن سکتی ہے۔
مولانا مودودی نے تن تنہا دعوت کے کام کا آغاز کیا اور اس کی بنیاد رسالہ ترجمان القرآن ہی بنا جس نے لوگوں کے ذہنوں کو راسخ کیا اور دل و دماغ کی دنیا ہی بدل ڈالی۔ مولانا مودوی نے اس رسالے کے لیے اپنی جان و جسم اور رگوں میں بہنے والے خون کو وقف کر دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں انگلی کے اشارے سے انٹر نیٹ کی بدولت جہاں ابلاغ کی سکت اور سہولت ہر خاص و عام کے پاس ہے، کیا فی زمانہ جماعت اسلامی کی دعوت کے اثرات معاشرے پر وہی ہیں جو مولانا مودودی نے عسرت اور تنگی کے باوجود تن تنہا صرف ترجمان القرآن سے نتائج حاصل کر کے دیے؟۔ موجودہ دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر ترجمان کی دعوت سے کیسے متعارف کرایا جاسکتا ہے؟۔ مولانا مودودی کے دور میں ترجمان کے دفتر کی تبدیلی کی وجہ سے دو ماہ ترجمان شایع نہ ہو سکا تو اس کا ایک خیر کا پہلو یہ سامنے آیا کہ جن لوگوں کو یہ پرچہ بوجہ شائع نہ ہونے کی شکایت اس وقت کے ماضی میں بھی رہی تھی، اتنے طویل عرصے التوا نے ان کو تو بالکل بے صبر کر دیا تھا اور دفتر ترجمان میں شکایات کے انبار لگ گئے تھے۔ فی زمانہ ترجمان القرآن ہر مہینے کے پہلے ہفتے کے وسط میں انٹرنیٹ پر منظر عام پر آتا ہے، کیا واقعی اب بھی ترجمان کی اشاعت کے انتظار میں عمومی طور سے قارئین کی بعینہٖ یہی کیفیت ہے؟ اس سوال کا گہرائی اور گیرائی سے جواب دعوت کی وسعت کے ضمن میں نئی سوچ اور زاویوں سے روشناس کرا سکتا ہے۔ عصر حاضر میں ترجمان القرآن سے وہ کام لینے کی ضرورت ہے جو مولانا مودودی نے کر کے دکھایا۔ حالات اور ابلاغ کے طریقہ کار میں زمان و مکان کی تبدیلی سے ان ہی حالات کا فائدہ اٹھانے پر سوچ و بچار از سر نو غور و خوض کے لیے اشد ضروری ٹھیرا۔ کتنے افراد ترجمان القرآن سے اور کس طرح مستفید ہو رہے ہیں؟، قارئین کی آرائس پر مشتمل ایک سوالنامہ ترجمان القران کو مزید بہتری اور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، ضروریات کی نشاندہی، موجودہ دور کے چیلنجوں سے نبرد آزما پالیسی بنانے، اشاعت بڑھانے اور قارئین کا دائرہ وسیع کرنے میں معاون و مددگار ہو سکتا ہے۔
ترجمان القرآن کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی نے دعوتی کام کے نئے اسلوب تلاش کیے۔ مولانا نے مسجد میں خطیب کے فرائض سنبھالے اور جمعہ کے خطبے میں وہ معرکہ آرا ‘‘خطبات’’ کا سلسلہ شروع کیا جو موضوعات کی ترتیب سے حقیقت اسلام، حقیقت صوم وصلاۃ، حقیقت زکٰوۃ، حقیقت حج و حقیقت جہاد کے طور پر شائع ہوئے اور جن کی وجہ سے آج تک لوگ نہ صرف متاثر بلکہ ذہن سازی کے لیے آج بھی جماعت کے حلقوں میں یہ کتب معروف ہیں۔ مولانا مودودی نے بطور مشورہ ان لوگوں کو جو درحقیقت کچھ کرنا چاہتے ہیں اس طرز پر جمعہ کی مرکزیت قائم کرنے کے لیے کہا اور یہ ہدایت کی کہ اختلافی مسائل سے بچ کر خطبہ جمعہ سے عامۃ المسلمین کو اصول دین کی تعلیم دینے اور ان کے اندر مسلمان ہونے کا احساس زندہ کرنے کا کام کس طرح لیا جا سکتا ہے۔ مولانا نے اس کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی کہ ان کی بات کا یہ مدعا نہ سمجھ لیا جائے کہ لوگ ان کے خطبوں کو پڑھیں یا ہو بہو ان کاموں کی نقل اتاریں۔ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگ اصول و طریقہ کار سمجھ لیں اور اپنے اپنے مقامی حالات کے لحاظ سے اس کو عمل میں لانا چاہیے۔ آج جماعت اسلامی کے پاس مساجد اور محلوں میں توسیع دعوت کے حوالے سے مواقع موجود ہیں۔ اس کام کے معاشرے میں اثرات، اس کی جانچ اور بہتری کے حوالے سے جائزہ، دعوت کے کام کی خاطر خواہ رفتار میں بہتری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
مولانا مودودی نے اسلام کے نظریہ اور دعوت کے فروغ کی ایک اور نئے اسلوب میں رہنمائی کی، خود ان ہی کے الفاظ میں ‘‘میں دراصل ایک شفاخانہ قائم کر رہا ہوں۔ دین داروں میں سے جو مالدار ہیں وہ شفا خانے کے قائم کرنے میں حصہ لیں اور ان میں سے جو غریب ہیں وہ اس کی دوائیں مریضوں تک پہنچانے میں حصہ لیں۔ اصل سعادت یہ ہے کہ آپ کے دل میں قومی امراض کے استیصال اور شفائے ربانی کے ایصال کا جذبہ ہو۔ آپ کا دل ایک ایسی ماں کا سا دل ہونا چاہیے جو اپنے بچوں کو بیمار دیکھ کر بے چین ہو جاتی ہے اور ان کی علاج میں کسی امکانی کوشش اور کسی بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ آپ جن لوگوں میں رہتے ہیں جن سے ملتے جلتے ہیں ان میں دیکھیے کہ کون کون بیمار ہیں اور کس کس مرض کے بیمار ہیں۔ جو شخص جس مرض میں مبتلا ہو اس مرض کی دوا اس کو دیجیے۔ زندقہ و الحاد کا مریض ہو تو اسے اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی پڑھائیے۔ وطن پرستی کا بیمار تو قومیت اسلام دیجیے۔ کمیونزم کا کسی پر حملہ ہو گیا ہو تو اس کا علاج سود کے مضمون سے کیجیے۔ آزادی نسواں کی بیماری میں پردے کی خوراک استعمال کرائیے۔ فرنگیت کے بیماروں کو اشارات کے مختلف مجموعے دیجیے (تنقیہات، تفہیمات) غرض جتنی وبائیں آج کل آپ کی قوم میں پھیلی ہوئی ہیں ان کو مٹانے پر کمر بستہ ہو جائیے۔ آپ خدا کے ثواب کی خواہش رکھتے ہیں تو خدا کا ثواب اتنا سستا نہیں کہ محض دس، پانچ روپے دے کر خرید لیا جائے۔ اس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے’’۔
اس تمام معاشرتی، معاشی، سماجی، سیاسی، عالم اسلام اور عالمی صورتحال میں واضح احکام قرآنی اور حدیث رسول اللہؐ کی روشنی میں تحریک اسلامی کا اہم فریضہ یعنی اصلاح معاشرہ اور سلگتے مسائل کا قابل عمل حل پیش کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت ہے کہ دعوت کے ابلاغ کے ساتھ مغربی افکار کے مقابلہ کے لیے ایک کشمکش کی فضا تیار کی جائے اور مغربی تہذیبی یلغار کا بھر پور مقابلہ کیا جائے۔ اسلامی افکار کی مخالف یلغار سے کشمکش جاری رکھی جائے۔ جب تک اس طرز کی یلغار کی سنگینی کا ادراک عوامی سطح پر نہ کرایا جائے، اذہان کو تبدیل نہ کیا جائے اور دعوت کے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ مزید نئے اسالیب تلاش نہ کیے جائیں دعوت کی معاشرہ میں اثر پذیری متاثر ہی رہے گی۔