ایم کیو ایم پر یہ عنایت کیوں؟

715

ہمارے دوست پوچھتے ہیں کہ ایم کیو ایم پر اسٹیبلشمنٹ کی اتنی عنایت کیوں ہے کہ اسے قومی اسمبلی کی 15 اور سندھ اسمبلی کی 25 نشستیں الاٹ کردیں، حالاں کہ خود ایم کیو ایم کا وجود کراچی میں سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ اگر انتخابات صاف اور شفاف ہوتے تو ایم کیو ایم کراچی سے شاید ایک نشست بھی نہ نکال پاتی، اس لیے کہ کراچی کا ووٹر ایم کیو ایم کے بھیانک چہرے کو خوب پہچانتا ہے۔ اسے بوری میں بند لاشیں ابھی تک نہیں بھولیں، اسے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے پورے کراچی کو یرغمال بنا رکھا تھا اور الطاف حسین کی ایک آواز پر شہر سائیں سائیں کرنے لگتا تھا۔ بالآخر یہ طلسم ٹوٹا تو کراچی کے شہریوں نے سُکھ کا سانس لیا، اب وہ کسی صورت بھی خود کو ایم کیو ایم کے سپرد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے حالیہ انتخابات میں بھرپور انداز میں کیا ہے۔ انہوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا ہے یا جماعت اسلامی کو، ایم کیو ایم کا تو کہیں نام نشان بھی نہیں ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ سرفہرست کیسے آگئی؟ یہ کوئی سربرستہ راز نہیں ہے، اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا یہ دعویٰ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی طور پر انتخابات تو الیکشن کمیشن نے کرائے ہیں لیکن اس کے نتائج اپنی اسکیم کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے جاری کیے ہیں۔ اگرچہ اس کی اسکیم تو یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کو تین چوتھائی اکثریت سے کامیاب کرایا جائے، میاں نواز شریف بھاری ’’مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ وفاق میں حکومت سنبھالیں، پنجاب میں شریف فیملی کا کوئی فرد حکومت کرے اور پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کی شرط پر صدارت اور سندھ کا صوبہ دے دیا جائے، لیکن عوام پی ٹی آئی کی حمایت میں یوں سیلاب کی مانند نکلے کہ مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت تو کیا سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکی بلکہ ایک باخبر صحافی

کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگر فارم 45 کے مطابق اصل نتائج جاری کیے جاتے تو مسلم لیگ (ن) کو صرف 20 سیٹیں مل سکتی تھیں۔ یہ جو اسے تھالی بھر کے سیٹیں دی گئی ہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کا کرشمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں اور عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ہے تو اسے حکومت بنادیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے بے دخل کرنا مقصود ہے تو تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو یہی اصولی موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس طرح سیاست ٹریک پر آجائے گی اور ملک سیاسی طور پر مستحکم ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنے اقتدار کے لیے اس اصولی موقف کو اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کے بجائے شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار ہو کر ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کی جائے۔ اسٹیبلشمنٹ انہی سیاستدانوں کو اپنے کاندھے پر بٹھاتی ہے جو اس کے بوٹ چاٹتے اور اس کے اشارئہ ابرو پر رقص کرتے ہیں۔ یہ میاں نواز شریف ہوں، شہباز شریف ہوں، مریم نواز ہوں، آصف زرداری ہوں یا بلاول زرداری، عمران خان بھی اسی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے لیکن اقتدار سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اختیار کرلیا اور اس کے لیے ہر ممکن صعوبت برداشت کی۔ عوام نے کے موقف کو سراہا اور ان سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انہیں انتخابات میں اعتماد کا ووٹ دیا ہے۔

اب ہم ایم کیو ایم کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ پارٹی ابتدا ہی سے اسٹیبلشمنٹ کی جماعت رہی ہے۔ اسے جنرل ضیا الحق کے دورِ آمریت میں جماعت اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اُتارا گیا تھا۔ جماعت اسلامی کو کراچی میں مہاجروں کی جماعت کہا جاتا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جو لوگ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ان کی اکثریت نے کراچی کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی خود مہاجر تھے، اس لیے انہوں نے مہاجرین کے مسائل پر خصوصی توجہ دی اور جماعت اسلامی نے بطور پالیسی مہاجرین کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا۔ اس طرح جماعت اسلامی کراچی کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہیں جماعت اسلامی کی یہ مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے اس کے مقابلے میں مہاجر عصبیت کو میدان میں لانے کا فیصلہ کرلیا۔ جماعت اسلامی مہاجروں کی جماعت ضرور تھی لیکن اس میں مہاجر عصبیت نہ تھی، وہ تو اسلامی اخوت کے جذبے سے کام کررہی تھی اس کے نزدیک مہاجر اور غیر مہاجر سب بھائی بھائی تھے۔ مہاجر عصبیت کے نام پر الطاف حسین مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک کاغذی تنظیم چلا رہے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے اس کی سرپرستی کا فیصلہ کیا، سرکاری سرپرستی کا نتیجہ یہ نکلا یہ تنظیم دیکھتے ہی دیکھتے ایک اژدھے کی صورت اختیار کرگئی اور الطاف حسین

فرعون بن گئے۔ انہوں نے سب سے زیادہ جماعت اسلامی کا خون بہایا۔ جنرل ضیا الحق اور ان کے بعد آنے والی اسٹیبلشمنٹ یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہی، شاید اس کی مرضی بھی یہی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی کو اس کی حد میں رکھا جائے۔ بعد میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ کا نام دے دیا لیکن اس کا مخفف ایم کیو ایم ہی رہا۔ اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی ذہنیت بدستور اپنا کام کرتی رہی۔ الطاف حسین کراچی میں بڑے پیمانے پر خونریزی کے بعد لندن فرار ہوگئے جہاں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ ان کا معاملہ طے کرانے میں معاونت کی۔ ’’را‘‘ نے لاکھوں پونڈ سالانہ کے عوض انہیں باقاعدہ ہائر کرلیا اور وہ ’’را‘‘ کی زبان میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دینے لگے۔ اسٹیبلشمنٹ یہ سب کچھ بے بسی سے دیکھتی رہی۔ اس نے جسے پال پوس کر جوان کیا تھا وہی اب اس پر جھپٹ رہا تھا۔ الطاف حسین کو پاکستان واپس لانا اور اسے سزا دینا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت برطانیہ کی حفاظتی تحویل میں تھا البتہ ایم کیو ایم میں نقب لگائی جاسکتی تھی۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم میں نقب لگا کر اس کا ایک دھڑا مصطفی کمال گروپ کے نام سے اپنا مہرا بنالیا۔ اب پاکستان میں یہی گروپ ایم کیو ایم کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں الطاف حسین کے پرانے وفادار بھی شامل ہیں۔ یہ وہ مہرا ہے جس کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سیاست میں اپنی چالیں چلتی رہتی ہے۔ اس ایم کیو ایم کو قومی اسمبلی اور سندھ میں سیٹیں اس لیے دی گئی ہیں تا کہ وہ وفاق اور سندھ حکومت میں شامل ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد پوری کرتی رہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا واحد طریقہ وہی ہے جس کا ذکر ہم ابتدا میں کرچکے ہیں۔