بلوچستان میں لاپتا افراد کا معاملہ خاصا پرانا ہے یہ بات 2006ء سے کہی جارہی ہے لیکن زیادہ زور آور انداز سے 2014ء میں اٹھائی گئی۔ جب ماما قدیر نے لاپتا افراد کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا ان کا اپنا بیٹا جلیل ریکی 2012ء میں لاش کی صورت میں پایا گیا تھا۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا۔ مشرف دور کے خاتمے کے بعد کئی جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں لیکن کوئی بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ البتہ کچھ معاملات میں لاپتا افراد واپس بھی آئے۔ 2019ء میں بی ایم پی (وائس آف بلوچستان مسنگ پرسن) کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایک سو دس لاپتا افراد کی جو فہرست حکومت کو دی گئی تھی اس میں سے گیارہ افراد واپس گھروںکو پہنچ چکے ہیں۔ اس پر انہوں نے حکومت کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کے معاملات پر سیاست کرنے والے ماما قدیر جیسے کافی افراد موجود ہیں۔ ماما قدیر پر یہ الزام بلوچ خود لگاتے ہیں کہ وہ بھارت جا کر مودی سے ملے اور ان سے پاکستانی اداروں اور ریاست کے خلاف جنگ کے لیے مدد طلب کی۔ اگرچہ ماما اس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کرے۔ لیکن یہ بات تو ہے کہ وہ مودی سے ملنے محض ان کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے تو ہرگز نہیں گئے ہوں گے۔ ماما بلوچ بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد پچاس ہزار بتاتے ہیں وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ جنجوعہ کے مطابق پاکستان میں جبری گمشدگی کے پانچ ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2011ء سے حکومت پاکستان نے جبری گمشدگیوں کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا اور اس کمیشن کے مطابق اپنے قیام سے لے کر اب تک پورے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے سات ہزار کیس رپورٹ ہوئے اور ان میں سے تقریباً پانچ ہزار کو حل کیا گیا ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 2001ء سے 2017ء تک تقریباً پانچ سو اٹھائیس بلوچ لاپتا ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ریاست کے ترجمان کافی عرصے سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ لاپتا افراد کے اعدادو شمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ بلوچستان میں باغی، یورپ فرار ہونے والے تارکین وطن افغانستان اور ایران میں روپوش ہونے والے اور ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرنے والے بھی لاپتا کہلاتے ہیں۔جنوری 2017ء کے شروع میں پانچ سوشل ایکٹوسٹ لاپتا ہوئے تھے تاہم چند دنوں میں تمام بلاگرز اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ان کے گھر والوں نے اس کی تصدیق بھی کی اور بتایا کہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں روپوش تھے؟
معاملہ یہ ہے کہ بلوچستان عشروں سے بغاوت، دہشت گردی، بے روزگاری، بری حکمرانی اور ظلم و قتل و غارت گری میں گھرا ہوا ہے۔ ریاستی پالیسیاں اس معاملے کو کسی ایسے زاویے سے دیکھتی ہیں جو بلوچوں کے لیے خلوص و محبت اور زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے طنز طعنہ اور طاقت کے وحشیانہ استعمال پر یقین رکھتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں تربت سے لاپتا افراد کے لواحقین اسلام آباد آئے تھے۔ اس قافلے میں آٹھ ماہ کی بچی سے لے کر اسی سال کی بوڑھی دادی بھی موجود تھیں سخت سرد موسم میں وہ کھلے آسمان میں خاردار تاروں میں گھروں کئی ہفتے انصاف کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ کیا تھا کہ صدر پریزیڈنٹ ہائوس یا وزیراعظم اپنے وزیراعظم ہائوس کے دروازے ان کے لیے کھول دیتے ان کے درد پر مرہم رکھتے ان کے دل کی باتیں دکھ درد کی کہانیاں سنتے اور ایک اعتماد دے کر رخصت کرتے ان کی آواز سنی گئی ہے۔
اب پچھلے سال نومبر 2023 میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی سے متعلق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انہتر (69) طلبہ کو مختلف یونیورسٹیوں سے اٹھا کر لاپتا کر دیا گیا ان طلبہ کو لاپتا کرنے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سیکورٹی ایجنسیوں کی تردید کے باوجود اس بات کے زبانی اور تحریری شواہد ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں۔ سیکورٹی ادارے کہتے ہیں کہ عسکریت پسند اپنی سرگرمیوں کے لیے فوجی وردی استمال کرتے ہیں۔ بہرحال عدالت نے اس کیس کو جنوری 2024 تک کے ملتوی کر دیا تھا۔ لہٰذا جنوری اور اب فروری میں یہ کیس اسلام آباد کی عدالت میں سنا جارہا ہے۔ جہاں یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ اب صرف سات طلبہ لاپتا ہیں باقی کا پتا لگا لیا گیا ہے۔ جو سات طلبہ رہ گئے ہیں ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نام کے علاوہ ان کی کوئی شناختی دستاویز موجود نہیں ہے۔ ریاست کے طاقت ور لوگ خواہ کچھ بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی بے چینی ایک حقیقت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی تہہ میں قومیت کا طاقتور جذبہ موجود ہے۔ وجہ سب سے بڑی یہ ہی ہے کہ حق دار کو حق نہیں ملا اور صاحبان اقتدار دینے پر آمادہ نہیں۔ لہٰذا اس کے حل کی جو کچھ کوششیں ہے وہ بے نتیجہ ہے۔ ضروری ہے کہ بلوچستان کی حقیقی سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے بات کی جائے۔ ان کو دھاندلیوں کے ذریعے اسمبلی سے دور رکھنے کے بجائے ان پر اعتماد کیا جائے۔ یہ بات بھی ہے کہ بلوچ نوجوان باشعور ہے آج اس کو مسلح عسکریت میں دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن ریاست کا رویہ یہی رہا تو وہ پھر وہی راہ لیں گے۔