لاڑکانہ میں آوارہ کتوں کی بہتات

448

آج کے مضمون کی سرخی کو آپ خدا نہ خواستہ کوئی طنزیہ جملہ نہ سمجھیں بلکہ 22فروری کے ایک اخبار میں خبر کی سرخی ہے کہ ’’لاڑکانہ میں آوارہ کتوں کی بہتات، ایک ہی دن میں 20 افراد پر حملہ‘‘۔ متاثرین کا ضلعی انتظامیہ سے آوارہ کتوں کے خلاف مہم چلا کر عام لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کا مطالبہ۔ متاثرین کے ورثاء ان زخمیوں کو سگ گزیدگی ویکسین سینٹر لے گئے وہاں انہیں ویکسین اور طبی امداد دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ اس حوالے سے ویکسین سینٹر کے عملے نے بتایا کہ آوارہ کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والے متاثرین کا تعلق لاڑکانہ شہر اور گرد و نواح سے ہے جن میں مرد و خواتین اور بچے شامل ہیں۔ تمام زخمیوں کو بروقت ویکسین اور ضروری طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ اس خبر میں یہ اچھی بات سامنے آئی کہ تمام زخمیوں کو بروقت طبی امداد دی گئی اور یہ شکایت کہیں سے نہیں ملی کہ اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین مہیا نہیں تھی۔ اس سے پہلے اس حوالے سے جتنی خبریں سننے کو ملتی اس میں ساتھ ہی یہ تشویشناک خبر بھی ہوتی کہ اسپتالوں میں ویکسین ختم ہوچکی ہے یا اس کا بحران ہے اور مل نہیں رہی ہے لیکن آپ میڈیکل اسٹور پر جائیں تو وہی ویکسین جو اسپتال میں فری لگنا چاہیے تھا اسٹور پر ایک ہزارگنا مہنگی مل جاتی ہے یوں سمجھ لیں کہ اگر کوئی دوا 200 روپے ہے تو میڈیکل اسٹور پر وہی دوا 2000 روپے کی ملے گی یہ تو اس کا ایک پہلو تھا دوسرا پہلو کتوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد اور پھر اس کے مارنے کا مسئلہ ہے۔

اب سے کم و بیش چالیس پچاس سال قبل ہم یہ دیکھتے تھے بلدیہ کی کتے مارنے والی گاڑیاں اپنے عملے کے ساتھ ہر تین چار ماہ بعد محلوں میں آتی تھیں اور عملے کے افراد ایک خاص ڈریس میں ہوتے جن کو دیکھتے ہی کتے دوڑ لگا دیتے پھر محلے کے بچے بلدیہ کے عملے کا ساتھ دیتے اور وہ انہیں گھیر گھار کے پکڑوا دیتے عملے کے فرد کے ہاتھ میں ایک بڑی سی لوہے کی سنسی ہوتی جس سے وہ کتوں کو گردن سے پکڑ کر لاتے اور ٹرک میں جو چاروں طرف سے بند ہوتا ڈال دیتے پھر کہیں پر لے جا کر انہیں جان سے مارتے ہوں گے۔ بعد میں یہ ہونے لگا کہ انہیں پکڑ کر لایا جاتا اور ٹرک کے قریب عملے کا ایک فرد بندوق لیے کھڑا ہوتا وہ اسے گولی مار کر ہلاک کرتا پھر ٹرک کے ڈبے کے اندر ڈالا جاتا اس سے اندر کا شور ختم ہوجاتا اور مزید گنجائش بھی بڑھ جاتی اس کے بعد طریقہ کار تبدیل ہوا کہ کتوں کو زہر دیا جانے لگا کہ رات کے وقت آخری ٹائم میں خاکروب کسی گلاب جامن یا رسگلے میں دوائی ملا کر کتوں کو کھلاتے چند لمحوں میں وہ مرجاتے پھر یہ بھی سلسلہ بند یا بہت کم ہوگیا آبادی میں کتوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھنے لگی جب اخبارات اور میڈیا میں بہت زیادہ شور مچتا تو پھر کسی علاقے میں کوئی مہم چلادی جاتی میری تجویز یہ ہے کہ بلدیہ کا پچھلے برسوں کا بجٹ اٹھا کر دیکھیں کہ اس مد میں کتنے خراجات ہوئے ہیں سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے گا۔

ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ آوارہ کتے کون ہوتے ہیں اس لیے کہ کتے تو کتے ہی ہوتے ہیں ان کے اندر شریف اور آوارہ کی پہچان کیا ہوگی۔ میرے خیال سے گھر کے پالتو کتے جو عموماً لوگ گھر کی رکھوالی یا مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ شوقیہ پالتے ہیں ان کو شاید شریف کتے سمجھا جاتا ہے۔ ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے ان کے لیے الگ سے کھانے کا انتظام ہوتا ہے بقیہ جو کتے آبادیوں میں گھوم پھر کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں انہیں آوارہ کتے کہا جاتا ہے جبکہ وہ کتے جو بڑے گھروں میں شوقیہ پالے جاتے ہیں یہ بستیوں میں رہنے والے کتوں سے زیادہ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں ائر کنڈیشن کمروں میں رکھا جاتا ہے بیرون ملک سے ان کے لیے ڈاگ فوڈ خصوصی طور سے منگوائے جاتے ہیں ایسے بھی شوقین دولت مند ہیں جو کتوں کی رکھوالی کے لیے الگ سے کئی ملازم رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں گلیوں اور بستیوں میں کتوں کو آوارہ کہنے کے بجائے لا وارث کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے لیکن پھر یہی کتے آبادی میں رہنے والوں کے لیے خطرناک بھی ہوتے ہیں جن کو مارنے کا پروگرام بنایا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو کلفٹن میں کسی دفتر میں ملازم ہیں وہ جب بس سے اتر کر کر پیدل دفتر جاتے تو راستے میں بڑے عالی شان بنگلے پڑتے ایک بنگلے کے چوکیدار سے ان کی سلام دعا ہوگئی ایک دن انہوں نے دیکھا کہ بنگلے کے گیٹ پر ایک بکرا ذبح کیا جارہا ہے۔ وقت تھا وہ چوکیدار کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے انہوں نے کہا یہ اچھا ہے کہ آپ کے صاحب کے لیے بازار سے گوشت نہیں آتا گھر میں بکرا ذبح کیا جاتا ہے۔ چوکیدار نے کہا نہیں صاحب یہ بکرا تو ہر دو تین دن کے بعد صاحب کے کتوں کے لیے کٹتا ہے انہوں نے پوچھا تمہارا صاحب کیا کھاتا ہے اس نے کہا کہ صاحب کو ڈاکٹر نے ہر قسم کا گوشت منع کیا ہوا ہے ان کے لیے سبزی کا سوپ بنتا ہے۔ دیکھا آپ نے ہماری معیشت جس سرمایہ دارانہ نظام کے اندر جکڑی ہوئی ہے اس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ 40فی صد لوگ غربت کی سطح سے نیچے جا چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک طرف کتوں کے لیے بکرے کاٹے جاتے ہیں دوسری طرف غربت سے تنگ آکر لوگ بیوی بچوں سمیت خود کشی کررہے ہیں۔

اب یہ سننے میں آیا ہے کہ کتوں کو مارا نہیں جائے گا بلکہ ان کو وہ انجکشن لگائے جائیں گے جس سے وہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے کہیں سے یہ خبر سننے کو ملی یا سینہ گزٹ اطلاع تھی کہ ملک کے ایک بااثر خاندان میں یہ دوائیں امپورٹ کی ہیں اور اس کو مہنگے داموں ملک میں سپلائی کیا جارہا ہے کہ اس تجارت سے اس خاندان کو فائد ہ پہنچایا جاسکے، دروغ برگردن راوی لیکن اس سے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔

میری تجویز ہے کہ کتوں کی نسل کشی کرنے کے بجائے ان کی نسل بڑھانے کی ادویات منگوائی جائے اور حکومت کتوں کو ایکسپورٹ آئٹم بنائے اور چین کوریا فلپائن وغیرہ یعنی ان ممالک میں جہاں کتے کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے وہاں کتوں کو برامد کرکے بھاری زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ بھارت میں بندروں کو ایک مقدس مقام حاصل ہے یہ چاہے کسی کا جتنا بھی نقصان کرلیں ان کو مارنے پر پابندی ہے صرف بھگا سکتے ہیں میں نے ایک دفعہ وہاں کا ایک کلپ دیکھا تھا کہ ایک سبزی والا ٹھیلا کھڑا کرکے ایک گھر کے دروازے پر سبزی دینے گیا پیچھے سے ایک بندر اس کے ٹھیلے پر آیا اور سبزی لے جانے لگا ٹھیلے والا بھاگ کر آیا اور اس کو بھگایا جتنے کا اس نے سودا بیچا اس سے زیادہ کا نقصان ہو گیا۔ ایک پاکستانی جاسوس کی آپ بیتی ایک اخبار میں قسط وار شائع ہوئی تھی پھر بعد میں غازی کے نام سے کتابی شکل میں آئی اس میں وہ ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ بمبئی میں ایک باغ میں وہ گھوم پھر رہے تھے وہاں ایک مسلمان فیملی آئی ہوئی تھی ایک بندر آیا ان کے سامان سے کھانے پینے کی چیزیں لینے لگا انہوں نے دور سے دیکھا تو کوئی پتھر اس کو مارا پھر ایسا لگا کہ وہ پتھر بندر کو تو شاید نہیں لگا لیکن وہاں پر موجود ہندوئوں کو لگ گیا کئی ہندو اس مسلمان کو مارنے لگے کہ اس نے ہنو مان جی کی شان میں گستاخی کی ہے اس مسلمان کے بیوی بچے رونے لگے یہ صاحب جو اپنی ضرورت کے تحت مسلح رہتے تھے انہوں نے وہاں جاکر فائرنگ کی ہندو بھاگ گئے مسلمان کی جان بچ گئی اور وہ بندر یعنی ان کے ہنو مان جی باغ کے باہر ایک درخت پر سہم کر بیٹھ گئے پھر وہ لکھتے ہیں کہ ان بندروں کو یعنی اپنے مقدس ہستی کو بھارت بیرون ملک برامد کر کے کروڑوں ڈالر سالانہ کماتا ہے۔ کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ کتوں کی برامد شروع کردیں بھارت جب اپنے خدا کو بیچ کر پیسے کمارہا ہے تو ہم اس کتے کو فروخت کریں گے جس کے بارے میں حضورؐ کی حدیث پاک ہے کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔