بائیڈن انتظامیہ پاکستان کی نئی​​ حکومت کو تسلیم نہ کرے ، امریکی قانون ساز

389

نیو یارک :امریکی کانگریس کے کم از کم 31 ارکان نے جو بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتخابات کی تحقیقات ہونے تک پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کرے۔

 یہ خط صدر بائیڈن اور سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن کو بھیجا گیا ہے اور اس میں نئی ​​حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے ‘انتخابی مداخلت کی مکمل، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات’ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 اس خط کی قیادت نمائندوں گریگ کیسر اور سوسن وائلڈ کر رہے ہیں، اور اس پر نمائندوں ڈونلڈ بیئر، جمال بومن، کوری بش، آندرے کارسن، جوڈی چو، یوویٹ کلارک، میڈیلین ڈین، لائیڈ ڈوگیٹ، ویرونیکا ایسکوبار، جیسس “چوئین” گارس کے دستخط ہیں۔

دیگر ارکان میں ہومز نارٹن، اسٹیون ہارس فورڈ، پرمیلا جے پال، ہانک جانسن، رو کھنہ، راجہ کرشنامورتی، گریگ لینڈزمین، باربرا لی، سمر لی، جم میک گورن، الہان ​​عمر، فرینک پیلون، جیمی راسکن، جان سکاکوسکی، راشدہ طلیب، ڈیوڈ ٹرون، مارک ویس شامل ہیں ۔

خط میں کہا گیا ہے کہ “ہم پاکستان کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں پولنگ سے قبل اور بعد از پول دھاندلی کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے لکھتے ہیں۔”

قانون سازوں نے امریکی حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام پر زور دے کہ وہ سیاسی قیدیوں کو رہا کریں اور ان کے مقدمات کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں۔

تیسرے اور آخری مطالبے میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو پاکستانی حکام پر واضح کرنا چاہیے کہ امریکی قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جمہوریت کو نقصان پہنچانے یا مزید بدعنوانی کے لیے جوابدہی فراہم کرتا ہے، جس میں فوج اور دیگر تعاون کو روکنے کے امکانات شامل ہیں۔

خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو ملک میں انتخابات سے چند روز قبل دو الگ الگ مقدمات میں جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا، ’’یہ امریکی مفاد میں ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان میں جمہوریت پروان چڑھے اور انتخابی نتائج پاکستانی عوام کے مفادات کی عکاسی کریں، نہ کہ پاکستانی اشرافیہ اور فوج کے مفادات‘‘۔