سند ھ میں پھر سید کے حوالے

609

جین مت کے گروگیان میں کہتے ہیں کہ جو نظر آتا ہے وہ دھوکا ہے۔ جو نظر سے اوجھل ہے وہ اصل حقیقت ہے اور حقیقت تو بند آنکھوں کے ساتھ بھی دیکھی جاسکتی! کچھ ایسا ہی مملکت خداداد میں ہورہا ہے۔ گردش اقتدار کی سوئی صوبہ سندھ میں گھوم پھر کر وہیں آکر اٹک گئی جہاں دو عشروں سے اس کا بسیرا ہے زہے نصیب مقدر کے دھنی سید مرا علی شاہ جو پارٹی سے لے کر مقتدر حلقوں تک اعتماد کے حامل ہیں پھر بامراد ٹھیرے، بلاول زرداری نے انہیں تیسری مرتبہ پھر سندھ کا وزیراعلیٰ بنادیا۔ اور یوں میڈیا پر جاری چہ مگوئیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ جس میں تواتر کے ساتھ یہ گردان چل رہی تھی کہ جس طرح پنجاب میں مریم نواز خاتون وزیراعلیٰ کا فیصلہ ہوا تو سندھ حکومت بھی فریال تالپور صاحبہ کو ملنی چاہیے جو عملاً ویسے بھی حکومت سندھ میں سفید و سیاہ کی مالک ہوتی ہیں مگر ایسا کچھ اللہ کے کرم سے نہ ہوا۔ عورت کی حکمرانی سے باب الاسلام سندھ محفوظ رہا، سید مراد علی شاہ سندھ میں سید اقتدار کا ایک تسلسل ضرور ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ 1988ء میں جب آصف علی زرداری کی انتخابی مرحلے کے قریب سکرنڈ کے قریبی گائوں دڑی منگسی میں آئے تو راقم نے ان سے دریافت کیا کہ سندھ کا وزیراعلیٰ سید تو نہ ہوگا تو آصف علی زرداری جو یقینا باخبر تھے چپ ہو کر رہ گئے، پھر بے نظیر صاحبہ برسراقتدار آئیں تو میڈیا سے ہی پتا چلا کہ وہ مخدوم گھرانے کے فرد کو وزیراعلیٰ بنانے کی تیاریوں میں تھیں کہ اچانک سید عبداللہ شاہ وزیراعلیٰ سندھ کا حکم نامہ موصول ہوا اور انہیں پی پی پی کو بنانا پڑ گیا۔ 1988ء کا پی پی پی کا اقتدار مشروط تھا مقتدر حلقوں سے پھر ان عبداللہ شاہ کے دور وزارت اعلیٰ میں ’سن‘ میں جی ایم سید کے گھرانے پر سرکاری یلغار کا معاملہ ہوا۔ پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو کی صورت مسند اقتدار پر بیٹھے تو 2002ء کے بلدیاتی انتخاب میں فریال تالپور ضلع نواب شاہ کی ناظمہ بنیں تو انہوں نے غیر سیاسی بلدیاتی انتخاب کا بھرم یوں رکھا کہ اپنے پروگرام میں جئے بھٹو کا نعرہ لگانے کو سختی سے منع کرکے پرویز مشرف کی گڈبک میں ایسا اندراج کرایا کہ پرویز مشرف دوڑے دوڑے نواب شاہ میں فریال تالپور کے جلسہ عام میں مہمان خصوصی بن کر شریک ہوئے۔ یہ فریال تالپور کی کامیاب سیاسی حکمت عملی تھی۔ بلدیاتی ضلعی نظام جب اپنی عمر معیاد پوری کرنے کے آخری مرحلہ میں تھا تو چرچہ ہوا کہ فریال تالپور سندھ کی وزیراعلیٰ بنائی جارہی ہیں مگر جھوٹ یا سچ پی پی پی نے بھانپ لیا کہ پرویز مشرف کا اقتدار ہچکیوں میں ہے۔ اُس نے شکریہ کے ساتھ یہ پیش کش مسترد کردی، البتہ فریال تالپور نے اس اثر رسوخ کا فائدہ اٹھا کر اپنے بھائی آصف علی زرداری کو پرویز مشرف سے خوش دلی کے ساتھ رہا کرالیا۔ یہ ان کی کامیاب حکمت عملی اور پرویز مشرف کی خوش فہمی تھی جو پی پی پی کو اقتدار کا زینہ ایم کیو ایم سے مل کر بنانا چاہتے تھے۔
پی پی پی نے سندھ کو سید کے سپرد رکھنے کے لیے سید قائم علی شاہ کے بعد سید مراد علی شاہ کا انتخاب ان کی خواہش پر کیا جو اقتدار کا سرچشمہ سمجھے جاتے ہیں۔ آپ سید عبداللہ شاہ کے فرزند ہیں، سید مراد علی شاہ کے حوالے سے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے نے مجھے بتایا کہ ایک مرحلہ تابعداری کا ان کا یوں بھی آیا کہ سندھ کے تاریخی قلعہ رنی کوٹ میں مقتدر حلقوں کے ایک اعلیٰ افسر نے مراد علی شاہ سے ملاقات کی اور کہا کہ ہم نے آپ کے حلقہ کی صوبائی سیٹ سید جلال محمود شاہ کو انتخابات کے ذریعے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تو شاہ صاحب نے آمنا صدقنا کہا اور یوں جلال محمود شاہ صوبائی اسمبلی کے رکن بن کر ڈپٹی اسپیکر بن گئے۔ سید مراد علی شاہ اقتدار کی تمام خوبیوں سے مرقع ہیں، ان کے پاس مقتدر لوگوں کے لیے نہ کا لفظ نہیں حاضر سائیں کا جملہ ہے، اقتدار کی قوت خوش تو سب خوش رہے عوام الناس وہ کب خوش ہوئے ہیں ان کی خوشی کب اقتدار کی راہ بناتی ہے اور اس قابل انہیں بنایا کب گیا ہے۔ وہ بے چارے تو بے نظیر انکم سپورٹ کی لولی پاپ سے خوش و خرم ہیں ان کا اقتدار میں کیا لینا دینا۔ اب کیا تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ بنائے جانے میں ان کا ہی ہاتھ ہوگا جو فیصلہ کن ہیں۔ سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بن گئے مگر باخبر حلقوں کے مطابق فریال تالپور صاحبہ ہی سندھ میں بادشاہ گر کا کردار ادا کریں گی۔ 2024ء کے انتخابات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جیتنے والے عوام کا انتخاب ہرگز نہیں تو حکمران بنائے جانے والے کب پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کا انتخاب ہیں صرف زبان ان کی ہے کلام اُن کا ہے واللہ اعلم۔ سندھ کا معروف جملہ ہے۔
’’سید بادشاہ‘‘۔ جو اب مقتدر کا بھی پسندیدہ ہو چلا ہے؟ سندھ کا مقدر بھی بنادیا گیا ہے۔ جب معاشرہ نہیں بدلا، حق اور سچ کی تمیز نہ کرسکا چلن وہ کا وہی رہا۔ تو پھر یہی کچھ ہونا تھا جو ہوتا آرہا ہے۔